قے آنے سے وضو کے ٹوٹنے کا حکم

بسم الله الرحمن الرحيم.

حضرت اقدس مفتي صاحب دامت بركاتهم.

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته.

کیا فرماتے ہیں علماءدین اس مسئلے کے بارے میں کیا قے آنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

بنت عبدالله 

١٥ ربيع الاول ١٤٣٩

٢جنوري ٢٠١٨ ء

الجواب حامدة و مصلية.

اگر قے ہو اور اس میں کہانا یا پانی یا پت گرے تو اگر منہ بھر قے ہوی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر منہ بھر نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔منہ بھر ہونے کا مطلب ہےکہ مشکل سے منہ میں رکے۔اگر قے میں بلغم گرا تو وضو نہیں ٹوٹا چاہے بلغم جتنا بھی ہو،منہ بھر ہو یا نہ ہو،سب کا ایک حکم ہے۔اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہنے والا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔چاہے کم ہو یا زیادہ،منہ بھر ہو یا نہیں ہو،اور اگر خون جمے ہوے ٹکڑوں کی صورت میں ہو اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جاے گا اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔

اگر تھوڑی تھوڑی کرکے کئى دفعہ قے ہوی لیکن سب ملا کر اتنی ہےکہ اگر ایک دفعہ میں ہوتی تو منہ بھر جاتا تو اگر ایک ہی متلی مسلسل باقی رہی اور تھوڑی تھوڑی قے ہوتی رہی تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر ایک ہی متلی مسلسل نہیں رہی بلکہ پہلی دفعہ کی متلی ختم ہوگی اور طبیعت ٹھیک ہو گئ پھر دوبارہ متلی شروع ہوئی اور تھوری قے ہو گئ،پھر جب متلی ختم ہو گئ تو تیسری دفعہ پھر متلی شروع ہوکر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔

ينقض الوضوء قىء ملأفاه بأن يضبط بتكلف من مرة اي صفراء او علق أي سوداء؛وأما العلق النازل من الرأس فغير ناقض او طعام أو ماء اذا اوصل الي معدته وان لم يستقر، وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه هو الصحيح لمخالطة النجاسة ذكره الحلبي.

ولو هو في المرىء فلا نقض اتفاقا كقىء حية أو دود كثير لطهارته في نفسه،كماء فم النائم فانه طاهر مطلقا به يفتی، بخلاف ماء فم الميت فانه نجس كقيء عين خمر أو بول وان لم ينقض لقلته لنجاسته بالاصالة لا بالمجاورة لا ينقضه قيء من بلغم علي المعتمد(أصلا) الا المخلوط بطعام فيعتبر الغالب،ولو استويا فكل على حدة.وينقضه دم مائع من جوف أو فم( غلب على بزاق) حكما للغالب( أو ساواه) احتياطا.لا ينقضه المغلوب بالبزاق والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق.

ويجمع متفرق القىء و يجعل كقيء واحد لاتحاد السبب وهو الغيثان عند محمد رحمه الله وهو الاصح، لان الاصل اضافة الاحكام الي اسبابها الا لمانع، كما بسط في الكافي.

(رد المحتار على الدرالمختار)

(حاشية ابن عابدين)

(ج: ا/ص ٢٩٣۔٢٨٩)

بنت امل خان

دارالافتاء

١٥ ربيع الثاني ١٤٣٩ء

٢ جنوري ٢٠١٨ء

اپنا تبصرہ بھیجیں