قاضی کا از خود خلع کروانا

فتویٰ نمبر:5077

سوال: کیا شریعت میں کسی جج یا قاضی کو یہ اختیار یا حق حاصل ہے کہ وہ خود سے، اپنی مرضی سے میاں بیوی کے درمیان خلع کرواۓ یعنی بیوی کو خلع کی ڈگری

جاری کرے؟ یاد رہے کہ میں نے یہاں لفظ خلع استعمال کیا ہے تنسیخ نکاح یا فسخ نکاح کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے

جزاك اللهُ‎

و السلام

الجواب حامدا و مصليا

عام حالات میں عدالتی خلع کا کوئی اعتبار نہیں ہے البتہ بعض مخصوص حالات میں جب تنسیخِ نکاح کی وجہ پائی جاتی ہو جیسے نان نفقہ نہ دینا یا شدید مار پٹائی وغیرہ کرنا تو اُس صورت میں اگر عدالت خلع کے الفاظ لکھے تو تنیسخِ نکاح کی بنیادی وجہ پائے جانے کی وجہ سے اس خلع کو تنسیخِ نکاح مانا جائے گا اور وہ بطور تنسیخِ نکاح کے قابل قبول ہو گا۔

فتاوی عثمانی میں ہے :

” اگر خاتون شوہر سے خلع چاہتی ہیں اور وہ اس پہ راضی نہیں، مسلمان عدالت میں نان نفقہ نہ ہونے پہ دعوی دائر کیا جائے ۔ عدالت شوہر کو حقوق ادا کرنے کا حکم دے یا اس کو طلاق دے دے۔ اگر شوہر ان میں سے کسی صورت پہ راضی نہ ہو تو عدالت کو اختیار ہو گا کہ وہ شوہر کے قائے مقام ہو کر اس نکاح کو ختم کر دے”

{ فتاوی عثمانی: ۲/۴۵۴}

” فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے:

” اگر شوہر بیوی کو نفقہ کے معاملے میں پریشان کرتا ہوسخت مجبوری کی بنا پر علمائے احناف نے عورت کو مصیبت سے نکالنے کے لیے مذہب مالکیہ پر فتوی دیا ہے۔ جس کسی قسم کی مصالحت یا خلع کی گنجائش نہ رہے تو عورت کو اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کر کے تفریق کا اختیار ہے۔ یہ اختیار قاضی کو حاصل ہے کہ وہ ان میں تفریق کروائے۔ 

سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں:۔

۱} عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے اور نہ ہی وہ خود اپنی آبرو کی حفاظت کرتے ہوئے کسب معاش کا بندوبست کر سکے۔

۲} خرچ کا انتظام تو ہو سکتا ہے مگر شوہر سے علیحدہ رہنے میں مسائل کا قوی خطرہ ہو۔ 

عورت جب اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرے تو وہ معاملہ کی شرعی شہادت کے ذریعے تحقیق کریں، اگر اس کا دعوی سچ ثابت ہو کہ شوہر باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا تو اس کے شوہر سے کہا جائے کہ اس کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، اگر وہ راضی نہ ہو تو قاضی یا شرعا جو اس کے قائے مقام ہو وہ طلاق کروا دے، کسی مدت کے انتظار کی ضرورت نہیں۔”

{فتاوی دارالعلوم زکریا:۴/۲۴۲}

“قال العلامہ الکاسانی رحمہ اللہ : و امارکنہ فھو الایجاب و القبول لانہ عقد علی الطلاق بعوض فلا تقع الفرقۃ و لا یستحق العوض بدون القبول۔”

{ بدائع الصنائع: ۳/۱۴۵}

“و قال الامام السرخسی رحمہ اللہ: و الخلع جائز عند السلطان وغیرہ لانہ عقد یعتمد التراضی کسائر العقود و ھو بمنزلۃ الطلاق بعوض وللزوج ولایۃ ایقاع الطلاق و لھا ولایۃ الالتزام العوض۔”

{المبسوط السرخسی: ۶/۱۷۳}

“ھو ازالۃ ملک النکاح الخ المتوقفۃ علی قبولھا الخ وشرط کالطلاق”۔

{الدر المختار: ۲/۷۶۶}

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 26 صفر 1441

عیسوی تاریخ:26 اکتوبر 2019

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں