قبلہ کی جانب پیر کرکے سونا

سوال: السلام علیکم

قبلہ رخ پیر کر کے سونا کیسا ہے؟

جواب:وعلیکم السلام ورحمة اللہ!

قبلہ شعائر اسلام میں سے ایک عظیم الشان شعار اور اس کی طرف پاؤں کرنا بے ادبی اور مکروہ ہے۔ لہذا اگر کوئی جان بوجھ کر بغیر عذر کے قبلہ کی جانب پیر کرکے سوئے تو یہ مکروہ ہے۔ لیکن اگر کسی عذر یا بھول سے ہو تو مکروہ نہیں۔

چنانچہ بنوری ٹاؤن کے فتوی میں ہے:

قبلہ کی طرف پاؤ ں پھیلانا خلاف ادب ہے، اگر بلا عذر قصداً واراداۃً ایسا کیا جائے تو مکروہ تحریمی ہے، اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ ہے، یہاں تک کہ فقہاء نے تو قصداً کعبۃ اللہ کی طرف پاؤں پھیلانے والے کی گواہی تک کو قبول نہیں کیا، جب کہ گواہی صرف اسی عمل کے ارتکاب سے مردود ہوتی ہے جو عمل فسق کے دائرہ میں داخل ہوتا ہو، البتہ اگر قصداًیا تساھلاً( معمولی اور ہلکا سمجھتے ہوئے) نہ ہو تو پھر گناہ نہیں، البتہ خلافِ ادب ضرور ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

▪️: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

ومن یعظم شعائر اللہ ،فانھا من تقوی القلوب (الحج:۳۲)

ترجمہ: “جو کوئی شعائراللہ کی تعظیم کرے (وہ مشرک نہیں ہے)سووہ دل کی پرہیز گاری کی بات ہے”۔

▪️ومن یعظم حرمات اللہ ،فھو خیر لہ عند ربہ (الحج:۳۰)

ترجمہ: “جوکوئی اللہ تعالیٰ کی قابلِ احترام چیزوں کی تعظیم کرے ،تو یہ تعظیم کرنااس کے رب کے پاس اس کے لئے خیرکا سبب ہوگا”۔

▪️ويكره مد الرجلين إلى القبلة في النوم وغيره عمداً، وكذلك يكره مد الرجلين إلى المصحف، وإلى كتب الفقه لما فيه من ترك تعظيم جهة القبلة، وكلام الله تعالى، ومعاني كلام الله تعالى(المحيط البرهاني ج5ص321)

▪️” ویکره تحریماً استقبال القبلة بالفرج ۔۔۔کماکره مد رجلیه فی نوم او غیرها الیها ای عمدا لانه اساء ة ادب ۔ قال تحته: سیاتی انه بمد الرجل الیها ترد شهادته.”( فتاوی شامی ج: ۱، ص: ۶۵۵)

▪️فتاوی شامی میں ہے:

“(قوله: مد رجليه) أو رجل واحدة ومثل البالغ الصبي في الحكم المذكور ط (قوله أي عمداً) أي من غير عذر أما بالعذر أو السهو فلا ط….(قوله: لأنه إساءة أدب) أفاد أن الكراهة تنزيهية ط، لكن قدمنا عن الرحمتي في باب الاستنجاء أنه سيأتي أنه بمد الرجل إليها ترد شهادته. قال: وهذا يقتضي التحريم فليحرر، (قوله: إلا أن يكون) ما ذكر من المصحف والكتب؛ أما القبلة فهي إلى عنان السماء”. ( كتاب الصلاة، بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَمَا يُكْرَهُ فِيهَا، مطلب في الاحكام المساجد، ٢ / ٤٢٧، ط: دار عالم الكتب)

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں