ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:”سبا،یمن کے بادشاہوں اور اس ملک کے بادشاہوں کا لقب ہے،ملکہ بلقیس بھی اسی قوم سے تھیں”۔
امام احمد رحمہ اللہ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں،ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا،سبا جس کا قرآن میں ذکر ہے یہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا زمین کے کسی حصے کا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ ایک مرد کا نام ہے جس کی اولاد میں دس لڑکے ہوئے،جن میں سے چھ یمن میں آباد رہےاور چار شام میں چلے گئے”۔
یمن میں رہنے والوں کے نام یہ ہیں:
مدجج،کندہ،ازر،اشعری،انماد،حمیر،ان چھ لڑکوں سے چھ قبیلے پیدا ہوئے جو انہی کے ناموں سے معروف ہیں۔اود شام میں بسنے والوں کے نام یہ ہیں:
لخم،جذام،عاملہ،غسان۔ان کے قبائل بھی ان ہی کے نام سے مشہور ہیں۔
سبا کا اصل نام “عبدالشمس”تھا،سبا عبدالشمس بن یشحب بن یعرب بن قحطان سے ان کا نسب نامی واضح ہو جاتا ہے۔اہل تاریخ نے لکھا ہے،سبا عبد الشمس نے اپنے زمانے میں نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی تھی۔
سبا کی اولاد میں بعض کی سلطنتیں مصر،شام،ایران اور ہند تک پھیلی ہوئی تھیں،جن کی یادگار’غمدان’وغیرہ میں اب تک باقی ہے۔
(تفسیر حقانی)
شہر مارب:
ابن کثیر کے بیان کے مطابق’یمن’کے دارالحکومت’صنعاء’ سے تین میل کے فاصلے پر ایک شہر’مارب’تھا جس میں یہ قوم سبا آباد تھی۔دو پہاڑوں کے درمیان یہ شہر آباد تھا،پہاڑوں سے بارش کا پانی آنے کی صورت میں یہ شہر ہمیشہ سیلابوں کی زد میں رہتا۔اس شہر کے بادشاہوں نے جس میں ملکہ بلقیس کا نام بھی قابل ذکر ہے،دونوں پہاڑوں کے درمیان مضبوط بند(ڈیم) تعمیر کیا،جس نے سیلابوں کو روک کر پانی کا ذخیرہ بنا دیا،بندکے اندر اوپر نیچے پانی نکالنے کے لیے تین دروازے رکھے گئے،پہلے اوپر کا دروازہ کھول کر اس کا پانی لیا جاتا،جب اوپر کا پانی ختم ہوجاتا تو اس سے نیچے کا اور اس کے بعد سب سے نیچے کا دروازہ کھولا جاتا،یہاں تک کہ دوسرے سال بارشوں سے پھر پانی بھر جاتا۔بند کے نیچے ایک بڑا تالاب تھا جس میں بارہ نہریں نکال کر شہر کے مختلف اطراف میں پہونچائی گئیں تھیں۔یہ شہر کی ضرورتوں میں کام آتا تھا۔
(مظہری)
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری:
شہر کے دائیں بائیں جو پہاڑ تھےان کے کناروں پر باغات لگائے گئے تھے جن میں پانی کی نہریں جاری تھیں۔ان میں ہر طرح کے درخت اور ہر قسم کے پھل بہ کثرت پیدا ہوتے امام قتادہ رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق:”ان باغات میں ایک عورت سر پر ٹوکری لے کر چلتی تو درختوں سے ٹوٹ کر گرنے والے پھلوں سے وہ ٹوکری خود بخود بھر جا تی۔
(ابن کثیر)
قرآن کریم میں قوم سبا کا حال یوں بیان ہوتا ہے:
“لقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِىْ مَسْكَنِـهِـمْ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتَانِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّشِمَالٍ ۖ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُـرُوْا لَـهٝ ۚ بَلْـدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّّرَبٌّ غَفُوْرٌ (15)
بے شک قوم سبا کے لیے ان کی بستی میں ایک نشان تھا، دائیں اور بائیں دو باغ، اپنے رب کی روزی کھاؤ اور اس کا شکر کرو، عمدہ شہر رہنے کو اور بخشنے والا رب۔”
اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعے اس قوم کو پیغام پہنچایا،نعمتوں کا شکر ادا کرو،اعمال صالحہ اور اطاعت احکام الہیہ کے ساتھ کرتے رہو اللہ تعالیٰ نے تمہارے شہر کو بلدہ طیبہ بنا دیا ہے جس میں سردی گرمی کا اعتدال ہے اور آب و ہوا ایسی صحت بخش کہ پورے شہر میں مچھر،مکھی،پسو،سانپ اور بچھو جیسے موذی جانور کا نام ونشان نہیں بلکہ باہر سے آنے والے مسافروں کے کپڑوں میں جوئیں یا دوسرے موذی حشرات ہوتے تو وہ بھی مر جاتے ل۔
(ابن کثیر)
اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں تیرہ انبیاء کرام بھیجے مگر ان لوگوں نے انبیاء کرام کی تکذیب کی اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرکشی اور رو گردانی اختیار کی۔
زور دار سیلاب کا آنا:
فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُـمْ بِجَنَّـتَيْهِـمْ جَنَّـتَيْنِ ذَوَاتَىْ اُكُلٍ خَـمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّّشَىْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ (16)
“پھر انہوں نے نافرمانی کی پھر ہم نے ان پر سخت سیلاب بھیج دیا اور ہم نے ان کے دونوں باغوں کے بدلے میں دو باغ بدمزہ پھل کے اور جھاؤ کے اور کچھ تھوڑی سی بیریوں کے بدل دیے”۔
قوم سبا کی سرکشی کے سبب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو سزا دینے کے لئے سد مارب یعنی عرم کو توڑ کر سیلاب سے تباہ کرنے کا ارادہ کیا اور پانی کے عظیم الشان بند پر اندھے چوہے مسلط کردیے جنھوں نے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا اور کمزور کردیا،جب بارش اور سیلاب کا پانی آیا تو پانی کے دباؤ نے اس کی کمزور بنیادوں کو توڑ کر رخنے پیدا کردیے اور بالآخر اس بند کے پیچھے جمع شدہ پانی پوری وادی میں پھیل گیا،تمام مکانات منہدم اور درخت تباہ ہوگئے،پہاڑوں کے درمیان جو باغات تھے ان کا پانی بھی خشک ہوگیا۔
تاریخی واقعات میں ہے کہ کچھ ہوشیار و دور اندیش لوگوں نے چوہوں کو دیکھتے ہی دوسری جگہ منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔کچھ سیلاب کے شروع میں چلے گئے،چھ قبیلے ان کے یمن میں پھیلے،چار قبیلے شام میں،مدینہ طیبہ کی آبادی بھی ان ہی قبائل سے شروع ہوئی اور بہت سے سیلاب کی نذر ہوگئے غرضیکہ پورا شہر تباہ ہوگیا۔
(معارف القرآن)
ان کے باغات بھی مکمل تباہ کردیے گئے،ان باغات کی جگہ ایسے درخت اگادیئے جن کے پھل بد مزہ اور خراب تھے۔
خاردار درخت اور ترش پھل:
یہ درخت ‘اداک’ کی ایک قسم ہے جس پر کچھ پھل ہوتا ہے اور کھایا جاتا ہے مگر اس درخت کے پھل بھی بدمزہ تھے۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”خمط ہر ایسے درخت کو کہا جاتا ہے جو خاردار بھی ہو کڑوا بھی “۔
سفر کی سہولیات:
سورہ سبا آیت 18:
وَجَعَلْنَا بَيْنَـهُـمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِىْ بَارَكْنَا فِيْـهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّّقَدَّرْنَا فِيْـهَا السَّيْـرَ ۖ سِيْـرُوْا فِيْـهَا لَيَالِـىَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ (18)
“اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت رکھی تھی بہت سے گاؤں آباد کر رکھے تھے جو نظر آتے تھے اور ہم نے ان میں منزلیں مقرر کر دی تھیں، ان میں راتوں اور دنوں کو امن سے “۔
اللہ تعالیٰ نے ایک انعام ان لوگوں پر سد مارب کیا تھا جس کی وجہ سے ان میں خوشحالی پیا ہوئی اور دوسری طرف انھیں سفری سہولتیں بھی میسر تھیں۔
القری التی بدلنا فیھا سے مراد ملک شام ہے،ان لوگوں کو تجارت کے غرض سے شام کا سفر کرنا پڑتا تھا،شہر مارب سے ملک شام کا طویل فاصلہ ہے،راستے بھی نا ہموار ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قوم سبا پر یہ انعام فرمایا دیا کہ شہر مارب سے ملک شام تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بستیاں بنا دیں۔یہاں سے گزرنے والا مسافر دوپہر میں آرام کرتا کھانا کھاتا پھر ظہر کے بعد روانہ ہوکر آفتاب کے غروب تک اگلی بستی میں پہنچ کر رات گزارتا،کسی چور ڈاکو کا وہاں گزر نہ تھا۔
لیکن ان ظالموں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی اور خود یہ دعا مانگی:
ربنا بعدبین اسفارنا :”اے ہمارے پروردگار ہمارے سفروں کو دراز کردے”
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں تباہ و برباد کر دیا گیا اور دنیا میں ان کے قصے ہی رہ گئے۔
ومزقنھم کل ممزق:”اور ہم نے ان کو بالکل ٹکڑے ٹکڑے کر دیا”.
کاہن کا قوم سبا کا آگاہ کرنا:
ابن کثیر وغیرہ نے اس جگہ ایک کاہن کا طویل قصہ بیان کیاہے،سیلاب کا عذاب آنے سے پہلے ایک کاہن کو اس کا علم ہوگیا تھا،اس نے عجیب تدبیر سے اپنی زمین جائداد وغیرہ فروخت کی،پھر قوم کو آنے والے عذاب سے باخبر کیا اور کہا کہ فوراً یہاں سے نکل جاؤ،اس نے یہ بھی بتایا کہ اگر بہت دور محفوظ مقام پر جانا ہے تو’عمان’چلے جائو،جو ایسی سواریاں چاہیں جو کیچڑ میں ثابت قدم رہیں اور قحط کے زمانے میں کام آئیں وہ مدینہ منورہ چلے جائیں جس میں کھجور کثرت سے ہے،جو شراب،خمیری روٹی و پھل چاہیں وہ بصری چلے جائیں،قوم نے اس کے مشورے پر عمل کیا،قبیلہ آزر کے لوگ عمان چلے گئے،غسان ‘بصری’کی طرف،اوس و خزرج وبنو عثمان’یثرب’ کی طرف نکل گئے،بطن مرہ کے مقام پر،اس طرح یہ قوم ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔
سورہ سبا آیت 17:
“
ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُـمْ بِمَا كَفَرُوْا ۖ وَهَلْ نُجَازِىٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ (17)
“یہ ہم نے ان کی ناشکری کا بدلہ دیا اور ہم ناشکروں ہی کو برا بدلہ دیا کرتے ہیں۔”
قوم سبا کے عروج و زوال کے ذکر میں بڑی نشانی وعبرت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مومن کا حال عجیب ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ جو بھی تقدیری حکم نافذ فرماتے ہیں سب خیر ہی خیر اور نفع ہی نفع ہوتا ہے اگر اس کو راحت و خوشی حاصل ہوتی ہے تو یہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ اس کے آخرت کے لئے نفع بن جاتا ہے اگر تکلیف پیش آجائے تو صبر کرتا ہے جس کا اسے اجر و ثواب ملتا ہے،یہ مصیبت بھی اس کے لئے خیرونفع بن جاتی ہے۔”
(ابن کثیر)
تحریر:بنت سعید