قرآن کریم کی قسمیں گلدستہ قرآن ( چھٹا سبق )

قرآن کریم کی قسمیں
قرآن کریم میں متعدد چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔مخلوق کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر اللہ کی قسم کھائے لیکن وہ ذات جو خالق ومالک ہے اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی قسم کھائے یا کسی اور کی۔قرآن کریم میں کہیں نبی کریم ﷺکی قسم کھائی گئی ہے تو کہیں قرآن کی۔کہیں زمانے کی قسم ہے تو کہیں قلم کی۔چاند، سورج، آسمان، زمین،دن ،رات،انجیر، زیتون،مکہ،والد، اولاد،مختلف قسم کی ہواؤں اور دیگر بہت سی چیزیں ہیں جن کی قسمیں قرآن کریم میں مذکور ہیں۔
قرآن کریم میں قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنی تفسیر ”آسان ترجمۂ قرآن “میں لکھتے ہیں:
”یہاں دوباتیں سمجھنےکی ضرورت ہے۔ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کواپنی کسی بات کا یقین دلانےکےلیے کسی قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے،وہ اس بات سے بے نیازہےکہ اپنی کسی بات پر قسم کھائے ،البتہ قرآن کریم میں بہت سے مقدمات پراللہ تعالیٰ کی طرف سے جوقسمیں کھائی گئی ہیں،وہ کلام میں فصاحت وبلاغت کازور پیدا کرنےکےلیےآئی ہیں،اور بسا اوقات ان میں یہ پہلو بھی مدنظر ہےکہ جس چیز کی قسم کھائی جارہی ہےاگراس پرغورکیا جائے تووہ اس بات کی دلیل اورگواہ ہوتی ہے جوقسم کےبعدمذکور ہے ۔” (تفسیرسورۂ ذاریات)
مکی مدنی اور ان کی پہچان
مکی: وہ آیت یاسورۃ جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئی، چاہے مکہ میں نازل ہوئی ہویا مکہ سے باہر طائف، وادی جن یااور کسی علاقے کے سفر کے دوران ۔
مدنی: وہ آیت یا سورۃ جو ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل ہوئی، چاہے مدینے کے اندر نازل ہوئی ہوئی ہو یا مدینے سے باہر کسی سفر اور غزوے میں۔چنانچہ فتح مکہ یا حجۃ الوداع کے موقع پر یا غزوات کے دوران جو آیات نازل ہوئیں وہ بھی مدنی ہی کہلائیں گی۔
مکی یا مدنی سورۃ کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سورۃ مکمل طور پر مکی یا مدنی ہیں،بلکہ اکثراوقات ہوتا یہ ہے کہ مکی سورت میں مدنی آیات اور مدنی سورۃ میں مکی آیات موجود ہوتی ہیں۔اسی طرح ایک ہی سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہوتا ہے،ایک ہی آیت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہوتا ہے۔
پہچان:مکی مدنی کی پہچان کے کچھ قواعد مفسرین نے وضع کیے ہیں جن کا ذکر ان شاء اللہ! مفید رہے گا۔
1۔۔۔مکی سورتوں میں عقائد یعنی توحید ،رسالت، قیامت،شبہات کا جواب،قصص کا تذکرہ زیادہ ہوتا ہے ؛کیونکہ وہ کافروں کا معاشرہ تھا اور ایک کافرمعاشرے کے زیادہ مناسب یہی ہوتا ہےکہ ان کے عقائد کی تصحیح کی جائے اور ان کے شبہات کا جواب دیا جائے۔جبکہ مدنی سوروتوں میں احکام کی آیات زیادہ ہوتی ہیں؛کیونکہ اس وقت تک مسلم معاشرے کے عقائد درست ہوچکے تھے، اب احکام سیکھنے کا عمل شروع ہوا تھا۔
2۔۔۔مکی آیات میں صبراور معافی کا تذکرہ ملتا ہے؛کیونکہ حالات اسی کے متقاضی تھے، ہتھیار اٹھانے سے مسلمانوں کی جو تھوڑی بہت جماعت تھی وہ بھی ختم ہوسکتی تھی۔جبکہ مدینہ میں مسلمانوں کو حکومت اور شوکت عطاہوئی تھی ،مسلمان کمزور نہیں رہے تھے اس لیے مدنی آیات میں جہاد اور قتال کا تذکرہ ملتا ہے۔
3۔۔۔مکی سورتوں میں خطاب یا ایھا الناس سے کیاجاتا ہے؛کیونکہ”ناس“ کا مطلب ہے:”لوگ“ اس میں مسلمان اور کافر دونوں شامل ہیں اور مکہ میں بھی مسلمان اور کافر دونوں مذہب کے لوگ بستے تھے،جبکہ مدنی سورتوں یا ایھا الذین آمنو سے خطاب کیا جاتا ہے ؛کیونکہ مدینہ منورہ میں زیادہ تر افراد مسلمان تھے۔یہ قاعدہ کلی نہیں،اکثری ہے۔
تاریخ نزول قرآن
عموما آسمانی کتب اور صحیفے ایک ساتھ نازل ہوئے ہیں،یہ قرآن کریم کی خصوصیت ہے کہ یکبارگی نازل کرنے کی بجائے اللہ جل شانہ نے اسے وقفے وقفے سے نازل فرمایا،بلکہ دوبارالگ الگ طریقے سے نازل فرمایا:پہلے آسمان دنیا کے مقدس ترین مقام بیت العزت پر یکبارگی نازل فرمایا ،یہ رمضان المبارک کی شب قدر کاموقع تھا،ارشاد ہے:انا انزلنہ فی لیلۃ القدر،اناانزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ ۔
“انزال “عربی گرامر کے لحاظ سےیکبارگی نازل کرنے کو کہتے ہیں۔جبکہ دوسری بار بیت العزت سے وقفے وقفے سے حالات وضروریات کے مطابق نبی کریم ﷺ کے قلب اطہر پر تئیس(23) سال کے عرصے میں نازل فرمایا۔ارشاد ہے:انانحن نزلنا الذکر، تنزیل الکتب لاریب فیہ من رب العلمین۔تنزیل عربی گرامر میں آہستہ آہستہ نازل کرنے کو کہا جاتا ہے۔
قرآن مکہ میں بھی نازل ہوا اور مدینے میں بھی ۔گرمی میں بھی سردی میں بھی۔دن میں بھی رات میں بھی۔بیداری میں بھی اور بستر پر بھی۔زمین پر بھی اورآسمان میں بھی۔ایک سورت متعدد بار بھی نازل ہوئی ہے(جیسے سورہ فاتحہ)اور صرف ایک بار بھی۔بعض اوقات پوری سورت ایک ساتھ نازل ہوئی ہےجیسے سورہ انعام۔ اور اکثر ٹکڑوں کی صورت میں۔جب ٹکڑوں کی صورت میں نازل ہوتی تو نبی کریم ﷺ خود اس کے بارے میں ہدایت جاری فرماتے کہ اس آیت کو کس سورت میں کس جگہ رکھنا ہے؟
ڈاکٹر محمود غازی نے محاضرات قرآن میں لکھاہے کہ وحی کا نزول چوبیس ہزار بار ہوا ہے۔ جس کامطلب غالبا یہ ہے کہ وحی متلو ،غیرمتلو ان سب کو ملاکر چوبیس ہزار بار وحی کا نزول ہوا ہے۔
آہستہ آہستہ نازل ہونے کی حکمتیں
1۔۔۔ایک بارمیں پوری کتاب کو یاد رکھنامشکل تھا اس لیے تدریجا نزول ہوا تاکہ آپ ﷺ کو اور صحابہ کرام کو یاد کرنے میں آسانی رہے۔
2۔۔۔قرآن کریم کا بوجھ بہت زیادہ ہے ،چنانچہ وحی کی کیفیت اتنی سخت ہوتی تھی کہ سخت سردی میں بھی پسینہ آجایا کرتا تھا، قرآن اتنا بھاری ہے کہ پہاڑوں پر نازل ہوتا تو پہا ڑبھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ،اندازہ لگائیے کہ ایسا قرآن اگر یکبارگی نازل ہوجاتا تو نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک اور قلبِ اطہر کوکس حد تک بوجھ برداشت کرنا پڑتا،جبکہ دیگر انبیائے کرام پر کتاب ان کے قلوب پر نازل نہیں ہوتی تھی ،بلکہ انہیں مکمل کتاب ہاتھ میں دیدی جاتی تھی جس میں جسمانی بوجھ نہیں تھا۔
3۔۔۔ایک ساتھ نزول کی صورت میں تمام احکام ایک ساتھ فرض ہوجاتے جو کہ اس حکیمانہ اسلوب کے خلاف تھا جو اس شریعت کا خاصہ ہے۔
4۔۔۔حالات وواقعات کے لحاظ سے جب قرآن کریم نازل ہوتا تو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو تسلی زیادہ ملتی اورانہیں یقین کامل ہوجاتا کہ اللہ کی ذات ان کے حالات سے باخبر اور ان کے ساتھ ساتھ ہے۔
5۔۔۔تعلیم موقع مناسبت اور تدریج سے دی جائے تو وہ دلوں میں زیادہ ٹھہرتی بھی ہے اور زیادہ سبق بھی سکھاتی ہے،سابقہ مذاہب میں کتاب ایک ساتھ نازل ہوتی تھی جس میں مشق وتدریب کے مواقع کم تھے۔قرآن موقع کے لحاظ سے نازل ہوا اس سے نبی کریم ﷺ اور بالخصوص صحابہ کرام کی بہت زیادہ تربیت ہوئی ہے۔
حفاظت قرآن
قرآن کی حفاظت اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لی ہےاور جس چیز کی حفاظت خالق کائنات خود اپنے ذمہ لے لے اس میں رد وبدل کون کرسکتا ہے؟کون ہے جو رب کائنات کے حفاظتی حصار کو توڑسکے؟
قرآن کریم لوح محفوظ میں لکھارہا۔اللہ تعالی نے جبرئیل امین کے ذریعے نبی کریم ﷺ تک پہنچایا۔جبرئیل امین جیسے امین اورطاقتورفرشتے قرآن کی حفاظت میں کمی کسر کیسے چھوڑسکتے ہیں؟جبرئیل امین جیسے ہی کوئی آیت لے کر نازل ہوتے آپ کو وہ آیت یاد ہوجاتی جسے آپ کاتبین وحی صحابہ سے لکھوالیتے۔اِس دور میں قرآن کریم کومتفرق جگہوں میں اورمتفرق چیزوں پر لکھوایا گیا،یکجا جمع نہیں کیاگیا۔ قرآن کریم مکمل اور یکجا حالت میں نبی کریم ﷺ اور حفاظ صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ رہا۔آپ ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نےجمع قرآن کے لیے سرکاری سطح پرکبارصحابہ (جن میں کاتبین وحی بھی شامل تھے) پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ۔کمیٹی نے قرآن کریم کے ان تمام لکھے ہوئےاوراق کوجمع کیا۔ناسخ منسوخ کو الگ کیااورہر سورت کو الگ جزو کی صورت میں محفوظ کردیااور حفاظت سے رکھوادیا۔اس مصحف میں نقطے اور حرکات نہ تھیں تاکہ تمام قرائتیں اس میں سماسکیں۔ ہرسورت الگ جزو میں محفوظ کی گئی،ایک ساتھ ایک مصحف میں ترتیب نہیں دیا گیا۔
اب حفاظ زیادہ تھے لیکن مصحف ایک ہی تھا،کوئی مرجع نہیں تھا جس سے حفظ کی درستی کی جاسکے۔ سرکاری نسخے سے ہٹ کر قرآن کریم کے پرائیوٹ نسخے بھی سامنے آنے لگے تھے جس میں قرآن کریم کے ساتھ تشریحی الفاظ تھے یا کمی بیشی تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں دوبارہ صحابہ کرام کی ایک کمیٹی بنائی ،کمیٹی نے ریکارڈ میں محفوظ اجزا کوایک مصحف میں یکجاکیا۔اس کی نقول کروائیں اور تمام صوبوں میں بھجوادیں ،ساتھ ساتھ تمام پرائیوٹ نسخےضائع کردیے گئے؛تاکہ اختلاف کاسد باب ہوسکے۔ آج بھی قرآن کریم اسی طرح محفوظ ہے جیسے آپ ﷺ اورصحابہ کرام کے زمانے میں محفوظ تھا۔ان عظیم اقدامات کے بعدقرآن کریم متفقہ صورت میں محفوظ ہوگیا۔مصاحف میں بھی اور معصوم بچوں اور حفاظ قرآن کے سینوں میں بھی۔
عصرحاضر میں جہاں ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور حافظے کمزور ہوگئے وہاں حفاظتِ قرآن کے جدید اسلوب متعارف ہوئے۔کمپیوٹر اورسرچنگ ٹیکنالوجی نے ایک طرف الفاظ کی حفاظت کو مزیدمستحکم کردیا ہےتو دوسری طرف آڈیوزاور ویڈیوزکی شکلیں بھی قرآن کریم کو محفوظ کررہی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ویب سائٹس کی دنیا میں حفاظت قرآن کا منظم نظام قائم کیا جائے اور ہر ایسی کوشش کو ناکام بنایا جائے جو قرآنی الفاظ اور اس کے تراجم کی ساکھ کو متاثر کرے۔
تلاوت میں آسانی پیدا کرنے کے اقدامات
قرآن کریم پر بڑا کام ہوا ہے۔حفاظتی حصار کے بعد اس سے استفادے میں آسانی کے لیے بھی اقدامات کیے گئے۔مثلا:
1۔سرکاری سطح پر تیارکیے گئے مصحف عثمانی کو تمام صوبوں میں پھیلادیا گیا۔یہ اقدام حضرت عثمان ذوالنورین کے دورحکومت میں انجام پایا۔
2۔مصحف عثمانی میں نقطے اور حرکات نہیں تھیں۔مشہور ہے کہ اموی دور حکومت میں نقطے اور اعراب لگانے کا کارنامہ انجام دیا گیا۔اس اقدام کا فائدہ یہ ہوا کہ اب عجمی اقوام بھی قرآن بآسانی پڑھ سکتی ہیں۔ورنہ پہلے عجم کے لیےصرف نحو سیکھے بغیر درست طریقے سےقرآن کریم کی ناظرہ تلاوت نہایت مشکل تھی۔
3۔قرآن کریم کو سات منزلوں میں تقسیم کیا گیا۔یہ اقدام صحابہ کرام کے عمل کو دیکھ کر کیا گیا۔صحابہ کرام نے قرآن کریم کو سات متوازن حصوں میں تقسیم کررکھا تھا تاکہ سات دنوں میں قرآن کریم کی تکمیل ہوسکے۔سات منزلوں کا مخفف ’’فمی بشوق‘‘ ہے۔فا سے مراد سورہ فاتحہ۔میم سے مراد سورہ مائدہ۔یا سے مراد سورہ یونس۔با سے مراد سورہ بنی اسرائیل ۔شین سے مراد سورہ شعراء۔واؤ سے مراد والصفت اور قاف سے مراد سورہ قاف ہے۔
4۔قرآن کریم کو تیس اجزا میں تقسیم کیا گیا۔زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ تقسیم صحابہ کرام کے دور کےبعد عمل میں آئی۔
5۔ ہر پارے کے اندر ربع، نصف اور ثلثہ کے نشانات حواشی میں لگائےگئے؛تاکہ پڑھنے والےکواندازہ ہوکہ پارے کا کتنا فی صد حصہ ہوچکا ہے اورکتنا باقی ہے۔
6۔رموزِ اوقاف لگائے گئے۔رموز اوقاف وہ فن ہے جو جدید اسلوب تحریر میں صدیوں بعد وجود میں آیا،لیکن مسلمان علما نے صدیوں پہلے قرآن کریم میں رموز اوقاف لگائے ہیں۔
7۔آیت کےلیےگول ۃکانشان لگایا گیا۔
8۔رکوع کے نشان لگائے گئے۔رکوع کی تعداد اس طرح سے بنائی گئی ہے کہ تروایح کی ہر رکعت میں ایک رکوع پڑھا جائے تو ستائیسویں رات میں قرآن کریم مکمل ہوجائے۔
9۔پہلے قرآن کریم کے نسخوں کی تعداد کم ہوتی تھی۔تختیوں پر لکھواکر بچوں کو قرآن حفظ و ناظرہ کروایا جاتا تھا۔ جب طباعت کی مشینیں ایجاد ہوئیں تو قرآن کریم پریس میں چھپنے لگا اور کثیر تعداد میں اس کی اشاعت ہونے لگی۔
10۔عصرحاضرمیں قرآن کریم کوغنہ،مد،قلقلہ اور دیگر تجویدی رموز کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کروایا جارہا ہے۔اسے تجویدی قرآن کہا جاتا ہے۔
11۔حواشی میں متشابہات کی نشان دہی کی گئی اور آیات متشابہات کونشان زد کرکے قرآن کریم کی طباعت کی گئی۔
12۔انگریزی دان طبقے کے لیے دنیا کےبعض خطوں میں یہ ترتیب بھی رکھی گئی کہ قرآن کریم کو تحت اللفظ انگلش ورڈز میں لکھ کر بتایا گیا؛تاکہ وہ آسانی سے پڑھ سکیں۔یاد رہے کہ اس اسلوب تحریر کی اجازت خاص صرف اس صورت میں ہے جب مصحف عثمانی کے اصل الفاظ بھی ساتھ ساتھ موجود ہوں۔
13۔موجودہ دورمیں نابینا افراد کے لیےقرآن کریم کو بریل خط میں متعارف کرانے کی کامیاب کوششیں بھی ہوئی ہیں۔
موضوعات قرآن
قرآن کتاب ہدایت ہے۔اس کااولین مقصداور موضوع انسانیت کو اللہ کی بندگی میں لاکر ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنا اور انہیں دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور کرناہے۔
تاہم قرآنی آیات کوالگ الگ موضوعات پر تقسیم کرنا چاہیں تومتعددموضوعات بن سکتے ہیں :بنیادی موضوعات پانچ ہیں:توحید، رسالت، قیامت، قصص اور احکام۔قصص کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ماننے والوں کے احول اور نہ ماننے والوں کے احوال۔
ذیلی موضوعات )جوانہی سے پیوستہ ہیں(یہ ہیں: تشبیہات، امثال، جنت ،جہنم،وعظ وتذکیر، سیرت واخلاق ،فلکیات، نباتات،حیوانات، جمادات، بحریات،نفسیات وغیرہ ۔احکام کی آیات ہزار سے اوپر ہیں۔سائنس یعنی امور فطرت سے متعلق آیات بھی ہزار سے زائد ہیں۔
اسالیبِ قرآن
مناظرانہ اسلوب
قرآن کریم ا کثروبیشتر چار گمراہ عناصر سے مناظرانہ اسلوب میں خطاب کرتا ہے:مشرکین ، یہود، نصاری ، منافقین ۔
1۔مشرکین سے مراد مکہ مکرمہ میں آباد بت پرست قوم ہے جوخود کو ملت ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے لیکن چند ایک چیزوں کے علاوہ بقیہ تمام امو ر میں وہ ملت ابراہیمی سے منحرف ہوچکے تھے۔فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور جنات کو اللہ کے بیٹے کہتے تھے۔کچھ قبائل لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ شرکیہ عقائد کے علاوہ اور بھی بہت سی بداخلاقیاں ان میں رائج تھیں۔خالق مالک رازق اللہ کو مانتے تھے لیکن انبیاء اور فرشتوں کے نام کےبت بنارکھے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جیسے ایک بادشاہ اپنے وزیروں کواختیارات منتقل کردیتا ہے اسی طرح اللہ تعالی نے بھی اپنے نیک بندوں کو اختیارات منتقل کردیے ہیں ،لہذا ان مفوضہ امور میں بزعم خود وہ انہی بتوں سے مانگاکرتے تھےیاوہ یہ کہتے تھے کہ ہم ان بزرگوں کی مورتیوں کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں اور ہماری درخواستیں اللہ کے دربار میں جلدی قبول ہوں۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان کےایسے تمام اعتقادات پر رد کیاہے۔قرآن کریم نے قوم نوح، قوم عاد وثموداور دیگر بہت سی مشرک قوموں اور ان کے اخلاق رذیلہ کاتذکرہ بھی اسی لیے کیا ہے تاکہ مشرکین مکہ اور دنیاکی موجودہ مشرک اقوام کو اس سے عبرت وموعظت حاصل ہو۔
2۔یہود حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت کے پیروکاروں کوکہتے ہیں۔یہ خود کو اللہ کے محبوب سمجھتے تھے۔ان کے عوام جہاں باطل اعتقادات کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے وہاں ان کے علمارشوت خوری، تحریف فی الدین، تلبیس ،کتمان حق اور دیگر بہت سی برائیوں کاشکار تھے۔ دنیا اور زندگی کی ہوس ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔قرآن کریم کے مطابق یہود اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں ،مشرکین سے بھی بدتر دشمن ہیں۔ نبی کریمﷺ کی صفات سے واقف ہونے کے باوجود ان کے اکثرعوام وخواص آپﷺ پر ایمان نہ لاتے تھے۔حضرت عیسی اور آپ کی والدہ پر طرح طرح کے ناگفتہ بہ الزامات لگاتے تھے۔پارہ الم میں یہودیوں کی چالیس بیماروں کاتذکرہ کیا گیا ہے۔ان کاایک فرقہ حضرت عزیرعلیہ السلام کو اللہ کابیٹاقرار دیتا تھا۔
3۔نصاری حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت کے پیروکاروں کوکہتے ہیں۔نزول قرآن سے پہلے ہی پولوس کی دسیسہ کاریوں کی وجہ سے مسیحیت کاحلیہ بگڑچکاتھا۔ثالث ثلثۃ یعنی تین مل کر ایک خداکے قائل تھے۔عیسی علیہ السلام کی محبت میں اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ ان کو یاتو خداکہتے تھے یا خدا کابیٹا۔علماومشائخ کو شریک فی الحکم بنالیاتھا یعنی اللہ تعالی کےصریح حکم کے باوجود علماء سوء کے غلط فتووں پر عمل کی روش ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی۔
4۔منافقین ،خود کو مسلمان کہتے تھےلیکن دل میں کافرانہ خیالات رکھتے تھے اور کفار کاساتھ دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتےتھے…
تاہم متعددمقامات پر صابئین کابھی تذکرہ ملتاہے۔صابئین ستارہ پرست قوم گزری ہے۔ بعض اہل علم انہیں حضرت داؤد علیہ السلام کی امت قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض اہل علم انہیں آدم علیہ السلام کے مذہب کے پیروکار بتلاتے ہیں۔واللہ اعلم بالصواب
فقہی اسلوب
قرآن کریم احکام سے بھی بحث کرتا ہے ۔عموما وہی احکام بتاتا ہے جہاں تک انسانی عقول کی رسائی نہیں ہوسکتی یا وہ دھوکا کھاسکتی ہیں۔اسی وجہ سے تمام قرآنی آیات میں احکام کی آیات ٪20 ہیں۔تاہم قرآن کریم جب احکام بتاتا ہے تو فقیہ اور قانون دان کی طرح صرف خشک قانونی بحث نہیں کرتا بلکہ خطیبانہ اسلوب میں وعظ وتذکیر بھی ساتھ ساتھ کرتا ہے۔
واقعہ نگاری
قرآن کریم واقعات بھی بیان کرتا ہے۔قرآن کریم نے 52 واقعات بیان کیے ہیں جن میں سے 26 پیغمبروں کے واقعات ہیں اور 26 اولیائے کرام کے۔ان میں کچھ واقعات بارباربیان کیے گئے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں کہ ایک دوبار ہی ان کاحوالہ دیا گیا ہے۔یہ تمام واقعات وہ ہیں جن سے عرب اور جزیرۃ العرب میں بسنے والی اقوام واقف تھیں۔قرآن نے ایران اور ہندوستان کے واقعات بیان نہیں کیے کیونکہ عرب اس سے واقف نہ تھے،لیکن سوائے چند ایک واقعات کے تمام مقامات پر قرآن کریم واقعات کی مرتب تفصیلات کے بجائےان سے نکلنے والے بصائر وعبراور تذکیر وموعظت پر زیادہ زور دیتا ہے؛تاکہ قصہ اصل مقصد نہ بنے بلکہ انسانی اذہان ان سے نکلنے والے نصائح پر مرکوز رہیں۔شرک اور معصیت کی قباحت اوراہل اللہ کی کامیابی وحقانیت ان کے دلوں میں راسخ ہو۔
نعمتوں کاتذکرہ
قرآن کریم بار بار اللہ تعالی کی قدرت اور نظام عالم میں پھیلے ہوئے اس کی بے پناہ طاقتوں کاتذکرہ اسلوب بدل بدل کر کرتا ہے۔کبھی کائنات اور آسمان زمین میں پھیلی ہوئی اس کی نعمتوں کاتذکرہ کرتا ہے توکبھی خود انسان کے جسم میں موجود نعمتوں کو یاد دلاتا ہےاور ان کاحوالہ دے کر انسان کوغور وتدبر کی طرف دعوت دیتا ہے کہ جس ہستی نے یہ کائنات اور اس کی ہر چیز کو وجود دیا وہی ایک اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اوروہی اس لائق ہے کہ اس سے مددمانگی جائے۔اوریہ کہ جو ذات پہلی بار ان مخلوقات کو پیدا کرسکتی ہے وہ دوبارہ کیوں پیدا نہیں کرسکتی؟الغرض! یہ دلائل وجود باری تعالی،توحید ، رسالت اور آخرت کوثابت کرنے کے لیے لائے جاتے ہیں۔
اعجاز قرآن
قرآن کریم معجزہ ہے۔اس کے اعجاز کی کئی متعدد جہتیں ہیں:
1۔قرآن اس لیے معجزہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود کوئی اس جیسا کلام پیش نہیں کرسکا۔قرآن چیلنج کرتا رہا لیکن آج تک کوئی اس چیلنج کو قبول نہیں کرسکا۔پہلے اس جیسی کتاب لانے کا کہا گیا،کوئی نہیں لاسکا۔پھر چیلنچ نرم کردیا گیا کہ چلیں اس جیسی کوئی ایک سورت لے کر آئیں لیکن وہ ایسا بھی نہ کرسکےتو کہا گیا کہ قرآن کریم جیسی ایک آیت بناکر دکھادیں لیکن وہ ایسا بھی نہ کرسکے۔
قرآن میں ہے : کہہ دو کہ اگر انس و جن جمع ہو جائیں اور کوشش کریں کہ اس قرآن کی مثل بنا لائیں تو وہ ہرگز اس کی مثل نا بنا سکیں گے خواہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔(سورۃ بنی اسرائیل،آیت 17،18)
2۔قرآن اس لیے معجزہ ہے کہ اس کی فصاحت وبلاغت،اسلوب ِبیان اور منفرد طرزتعبیر اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہےجہاں تک انسانوں کی رسائی ہی نہیں۔بڑے بڑے شاعر اور فصیح اللسان لوگ پیدا ہوئے لیکن کوئی اس کی ہمسری نہیں کرسکا۔قرآن کریم پراثر کلام ہے۔ اسلوب خطیبانہ ہے۔اس میں نثر بھی ہے اور نظم بھی۔جملوں کی ترکیب اور ساخت بے نظیر ہے۔ہر جملہ حسن کامرقع ہے۔ہرجملہ اتنا موزوں ہےکہ اس سے بہتر جملہ اس مقام پر آہی نہیں سکتا۔قرآن کریم مختصر پر اثرالفاظ پر مشتمل ہے۔اس میں تشبیہات،تلمیحات اور تمام اصناف ادب موجود ہیں۔کہیں کوئی ایسا لفظ نہیں جو زبان وادب کی چاشنی کے خلاف ہو۔تذکیروموعظت کے لیےواقعات جابجا ہیں ،واقعات سے کلام میں دل چسپی پیدا ہوتی ہے اور انسان ان سے عبرت حاصل کرتا ہے۔کبھی مخاطبت کا انداز چل رہا ہوتا ہے کہ اچانک غائبانہ کلام شروع ہوجاتا ہے اور کبھی اس کے برعکس۔اس کے ایک جملے کے کئی کئی معنی نکلتے ہیں۔جتنی بار پڑھا جائے دل نہیں بھرتا ،ہر بار معانی ومطالب کا ایک نیا باب وا ہوتا ہے۔ صدیاں گزرگئیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے قرآن پاک کے تمام معانی ومطالب پر عبور حاصل کرلیا ہے۔اس کی تعبیرات ایسی لچک دار ہیں کہ ہر زمانے کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں۔علوم وفنون کتنے ہی ترقی کرلیں لیکن جب انسان قرآن کریم کے بیانات پڑھتاہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ جسے جدیددور کی جدید ترین اورسب سے مستندعلمی کاوش سمجھتا تھا قرآن کریم میں اس کےواضح اشارے نظر آتے ہیں۔
ویکیپیڈیانےاپنی سائٹ پرجارج سیل کاقول آویزاں کیا ہے وہ کہتا ہے:
’’ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ کوئی انسانی قلم اسے لکھ نہیں سکتا۔یہ مردوں کو زندہ کرنے سے بڑا معجزہ ہے۔‘‘
3۔قرآن کریم میں بہتسے مقامات پرالفاظ کا چناؤ چونکا دینے والا ہے۔پڑھنے والا زیرِلب کہتا ہے کہ شاید یہ بے جا لفظ ہےیاایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ وہ لفظ بے جا نہیں بلکہ حقیقت وہی ہے جو قرآن نےبیان کی ہے،مثلاً: قرآن نے کہا ہے: وماکفر سلیمان ولکن الشیطین کفروا۔سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا لیکن شیاطین نے کفر کیا۔یہاں آکر پڑھنے والا چونک جاتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نبی ہیں۔وہ کفر کرہی نہیں سکتے تو اس کو باور کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن بائبل کے بیانات دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ در حقیقت اس الزام کا رد ہے جو بعض یہودیوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کیا تھا۔سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد بعض یہودیوں نے مشہور کردیا کہ سلیمان علیہ السلام کی محیرالعقول طاقت کا سرچشمہ وہ صندوق تھے جوان کے تخت کے نیچے چھپائے گئے تھے۔ان صندوقوں میں جادو ٹونے کی کتابیں تھیں، جنہیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے حفاظت کی غرض سے اس جگہ رکھا تھا۔قرآن کریم نے اس الزام کو رد کردیا اور فرمایا کہ سلیمان علیہ السلام کی طاقت عطیہ ٔ خداوندی تھا ۔ان کی یہ طاقت کسی جادو کے سہارے نہ تھی کیونکہ جادو کفر ہے اور نبی سے کفر نہیں ہوسکتا۔
4۔۔۔قرآن کریم اس لیے بھی معجزہ ہے کہ اس میں بیان کردہ تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔قرآن نے کہا کہ بدر میں کفار کوشکست ہوگی، سوہوئی۔قرآن نے کہا کہ روم کوچند سالوں میں فارس پر فتح ہوگی،سوہوئی ۔قرآن نے کہا کہ ابولہب کفر کی حالت میں مرے گا، سو کفر کی حالت میں مرا۔قرآن نے کہاکہ صلح حدیبیہ فتح مبین ہے سوایسا ہی ہوا۔قرآن نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ عمرہ کریں گے سو عمرہ نصیب ہوا۔قرآن نے کہاکہ خیبر فتح ہوگا، مکہ فتح ہوگا اور کئی ممالک فتح ہوں گے سو ایسا ہی ہوا۔قرآن نے اشارہ دیا کہ نبی مکرم ﷺ کی وفات کے بعد ارتداد کا فتنہ پھیلے گا سواس کا وقوع ہوکر رہا۔قرآن نے کہا کہ یہودی کی کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گےسو ایسا ہی ہوا۔قرآن نے پیشین گوئی کی کہ اسلام غالب ہوگا اور زمین میں خلافت قائم ہوگی سو ایسا ہی ہوا۔قرآن نے کہا کہ دشمن نبی کریم ﷺ کو جانی نقصان نہیں پہنچاپائیں گےچنانچہ ایسا ہی ہوا۔اور بھی بہت سی پیشین گوئیاں ہیں جو پوری ہوئیں۔الغرض!قرآن کی کہی گئی ہر پیشین گوئیاں حرف بحرف درست ثابت ہوئیں۔
5۔۔۔قرآن کے اعجاز کا ایک پہلو اس کا علمی اعجاز بھی ہے۔سطور بالامیں ہم عرض کرچکے ہیں کہ علوم وفنون چاہے جتنی ترقی کرلیں ،زمانہ چاہے جتنا آگے نکل جائے قرآن کریم کے اشارات سے باہر ہرگزنہیں نکل سکتے۔انہیں قرآن کے سامنے سرنگوں ہونا ہی پڑے گا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے جس کامشاہدہ ہردور کے لوگوں نے بارہاکیا۔بگ بینگ کا نظریہ ہو یا نظریہ اضافیت۔انکشافات پتھروں کے شعورکے بارے میں ہوں یاکائنات کے پھیلاؤکے بارے میں۔انسانی پیدائش کےترتیب وار مراحل ہوں یابادلوں کی ثقل کے حقائق ،حیوانات، جمادات، نباتات ،فلکیات،مابعد الطبیعات ؛غرض!قرآن کریم ان سب کے بارے میں اشارات فراہم کرتا ہے۔بعض معاصر محققین نے قرآن کریم کے عددی اعجاز پر بھی تفصیل کلام فرمایا ہے۔اس کا مطالعہ بھی نہایت مفید ہے۔
ماضی قریب اور عصر حاضر کے مصنفین میں سے ڈاکٹرموریس بکائیے،شیخ علی الطنطاوی،ڈاکٹر ذاکر نائیک، ڈاکٹرولی رازی،ڈاکٹرطاہر القادری اور انور بن اختر نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔جبکہ ویب سائٹس کی دنیامیں ویکیپڈیا،دلیل السلطان،الحاد جدید کا علمی محاکمہ ، صفہ پی کےاوردیگرپرسائنس اور قرآن کے حوالےسےبہت کچھ لکھا جاچکا ہےاور مزید لکھاجائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ علوم ختم ہوجائیں گے لیکن قرآن کریم کے عجائبات اور اس کے اعجازی پہلوکبھی ختم نہ ہوں گے۔
قواعد تفسیر
1۔آسمانی کتابوں کی آیات دوطرح کی ہوتی ہیں: ایک محکم دوسری متشابہ۔محکم ان آیات کوکہاجاتا ہے جن کے معنی بالکل صاف اور بے غبار ہوں ،اس میں کسی قسم کی پیچیدگی ہو نہ وہ منسوخ ہوں۔یہی آیات درحقیقت”ام الکتاب”ہوتی ہیں۔عقائدواحکام اور حلال وحرام کا ماخذ یہی آیات ہوتی ہیں۔
دوسری قسم ہےمتشابہ۔متشابہ ان آیات کوکہاجاتا ہے جن کے معنی یاتوسرے سے معلوم ہی نہیں ہوتے ،جیسے حروف مقطعات ۔یا الفاظ کے معنی معلوم ہوتے ہیں لیکن مصداق کیا ہےاس میں متعدد احتمالات کی گنجائش ہوتی ہے۔کچھ احتمالات ایسے بھی ہوتے ہیں جو محکم کے خلاف ہونے کی وجہ سے فاسد اور باطل ہوتے ہیں۔
اہل باطل عموما متشابہات کےایسے ہی احتمالات سے استدلال کرتے ہیں۔قرآن کریم نے واضح کیا ہے کہ متشابہات کے ایسے فاسد معنی سے استدلال کرنا اہل باطل کا شیوہ ہے۔درست طرز عمل یہ ہے کہ متشابہات کے وہ معنی لیے جائیں جو محکم آیات کے مطابق ہوں،وہ معنی نہ لیے جائیں جو ان کےخلاف ہوں ورنہ گمراہی اور فتنہ فساد پھیلے گا۔
ابن کثیر نےاس کو مثال سے واضح کیا ہے ۔قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق دو قسم کی آیات ہیں:محکم آیات سےصاف واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں اورحضرت آدم علیہ السلام کی طرح ایک انسا ن ہی ہیں ۔جس طرح اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا، مٹی کا پتلا بناکر “کن ” کہا تو حضرت آدم علیہ السلام میں روح پڑگئی،اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو بغیرباپ کے پیدا کیا، اللہ تعالی نے “کن ” فرمایاتو بی بی مریم کے شکم مبارک میں حضرت عیسی علیہ السلام کی افزائش شروع ہوگئی۔دوسری طرف متشابہ آیات ہیں جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کو ”روح اللہ“ اور ”کلمۃ اللہ“ کہا گیا ہے۔عیسائی طبقہ متشابہ آیات سے استدلال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنی روح اور اپنا کلمہ کہا ہے اس کا مطلب یہ بنا کہ عیسی خدا ہیں۔حالانکہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ کا یہ مصداق اخذ کرنا محکمات کے خلاف ہے۔محکمات سے واضح ہوچکا ہے کہ ایسا کہنا شرک ہے ۔عیسی علیہ السلام خدا ہیں نہ اس کے بیٹے ،بلکہ انسانوں میں سے ایک انسان ہیں۔ کلمۃ اللہ اور روح منہ کے ایسے معنی لیے جائیں گے تو محکمات کےمطابق ہو اور وہ یہ کہ کلمۃ اللہ سے مراد کلمہ “کن ” کہنا ہے اور روح منہ اس لیے کہا گیا کہ جبرئیل امین جن کا لقب روح ہے ان کی وساطت سے یہ کام انجام دیا گیا۔
اہل بدعت کو دیکھا جائے تو ان کا طرز استدلال بھی عموماایسا ہی رہا ہے۔وہ محکمات کے ہوتے ہوئے کسی آیت کے کسی ایسے لفظ سے استدلال کرتے ہیں جس کے کئی معنی نکل سکتے ہیں لیکن وہ وہی معنی لیتے ہیں جو ان کی بدعت کی تائید کرتا ہو۔علم غیب، بشریت انبیاء اور مختار کل کے مسائل میں یہی طرزعمل دیکھنے میں آتا ہے۔
2۔لیعلم اللہ ،لیعلمن اللہ اور اس جیسے الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالی کو معلوم نہیں، آگے جاکر معلوم ہوگا ؛کیونکہ اللہ تعالی کو ہر چیز معلوم ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ظاہر فرمادیں گے۔دنیاکے لوگوں کو معلوم کروادیں گے۔
3۔جن آیات میں کفار اور گمراہوں کے بارے میں یہ کہاگیا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر مہر لگادی یا اللہ تعالی نے انہیں گمراہ کردیا ، اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ کفر پر مجبور ہیں اور اللہ کے لکھ دینے کی وجہ سے وہ کافر اور گمراہ رہتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ طلب حق نہ ہونے کی وجہ سے بلکہ اپنی ضداور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اور اپنے اختیار سے انہوں نے کفر وضلالت کے راستے کوچنا اس لیے اللہ تعالی نے بھی ان پر مہر لگادی ۔
کیا صرف قرآن کافی ہے؟
احادیث کاحجت ہوناقرآن کی قطعی آیات سے ثابت ہے۔ یہ بات خود قرآن کریم سے ثابت ہے:
یاایہاالذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول (النساء :٥٩)
ومااتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا(الحشر :٧)
وماینطق عن الہویٰ ان ھوالاوحی یوحیٰ(النجم:٣)
من یطع الرسول فقد اطاع اللہ(النساء :٨١)
وماارسلنامن رسول الالیطاع باذن اللہ(النساء :٦٤)
ان سب آیات کا مفہوم یہ ہے کہ جیسے اللہ کی اطاعت ضروری ہے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے۔اللہ اور رسول اللہ ﷺ دونوں ہی واجب التعمیل ہستیاں ہیں۔رسول اللہ کو بھیجا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور ان کے طریقوں پر چلا جائے۔رسول اللہﷺ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کی نیابت میں اوران کی نمائندے کی حیثیت سے فرماتے ہیں۔ویسے بھی احادیث مبارکہ کے بغیر قرآن کاسمجھناناممکن ہے۔احادیث قرآن کریم کی تشریح وتفسیر ہوتی ہیں اس لیے احادیث کاانکارکرناقرآن کاانکارکرناہے اورقرآن کاانکارکرناکفرہے۔
جہاں تک احادیث کی حفاظت کامسئلہ ہے تو یادرکھیےخلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے احادیث کی حفاظت کا خاص اہتمام کیا پھر تابعین رحمہم اللہ کے دور میں کئی کتب لکھی گئیں موطا امام مالک اب بھی موجود ہے جو صرف 100سال بعد لکھی گئی ان کی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں صرف امام نافع راوی ہیں، انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں امام زہری راوی ہیں، غرض موطا میں سینکڑوں سندیں ایسی ہیں جن میں صحابہ اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں ۔امام مالک بہت عظیم بزرگ تھے ۔
صحیح بخاری حدیث کی پہلی کتاب نہیں بلکہ اس پہلے کی کتب صحیفہ ہمام ،صحیفہ صادقہ، مسند احمد، مسند حمیدی، موطا مالک ،مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق ، موطا محمد ،مسند شافعی آج بھی موجود ہیں۔
دیگر ائمہ نے بھی درس و تدریس کا ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ کوئی کذاب حدیث گھڑ کر احادیث صحیحہ میں شامل نہ کر سکا۔احادیث کی حفاظت کے لیے علم اسماء الرجال کی بنیادپڑی جونہایت حیرت انگیز فن بلکہ نبی کریم ﷺ کا زندہ معجزہ ہے ۔ان تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا کہ احادیث محفوظ نہیں، محض پروپیگنڈا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں