ایک ماہ سے ہمارے درمیان موجود معزز مہمان رمضان المبارک اب ہم سے جدا ہورہا ہے، لیکن کیا ہم نے رمضان کو ہم سے راضی کرکے الوداع کیا، یا پھر رمضان ہم پر اور ہمارے احوال پر حسرت وندامت کے مارے روتےہوئے گذر گیا، ہر سال کی طرح تورمضان چند خوبصورت لمحے بن کر چلا نہ گیا، ہمیں اس موقع پر اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے اور رمضان کے بعد بھی طاعات وبندگی پرثبات کے لیے ایک ایمانی منصوبہ اور لائحہ عمل بنانا چاہیے، تاکہ شوال سے آئندہ رمضان تک انشاء اللہ ہم اُن ایمانی مقاصد کی تکمیل پر عمل کرسکیں۔
ہر اس فرد کےنام یہ چند نصیحتیں ہیں جسے رمضان کے بعد غفلت اور معاصی کے گڑھے میں دوبارہ گرنے کا خوف ہے:
کیا ہمارا رمضان قبول ہوا یا نہیں؟
۱۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے رمضان ، اس کے روزے اور قیام کی توفیق بخشی،لیکن ہمیں اپنی عبادتوں پر کبر وفخر نہیں کرنا چاہیے؛ سلف صالحین کا معاملہ یہ تھا کہ اُن پر قبولیت کی فکر سوار رہتی تھی، لہٰذا وہ چھ مہینوں تک قبولیت کے لیے دعائیں کرتے تھے، یہاں ایک سوال ہے: کیا ہم نے رمضان کے قبولیت کی ضمانت لے لی ہے؟!، کیا روزوں کے مقاصد کی تکمیل ہوگئی ہے؟!
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔[البقرة: 183]
’’مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘
روزہ کا مقصد تقوی ہے، لہٰذا مہینہ کے ختم کے ساتھ آپ کے اندر تقوی پیدا ہوجائے تو اللہ کے حکم سے یہ قبولیت کی علامت ہے۔
جکڑے ہوئے شیطان کے مکروفریب سے بچیے:
شیطان آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے یہی وجہ ہے کہ رمضان کے پورے مہینے میں اس کے فریب سے روکا گیا اب وہ عنقریب تمہیں ہر قسم کے حقد وحسد اور دھوکہ وفریب میں تین طریقوں سے ڈالنے کی کوشش کرے گا:
۱۔وہ تمہیں گناہوں اور نافرمانیوں میں ڈالے گا، تاکہ تم مایوس ہوجاؤ لہٰذا تمہیں اپنے اعمال کا تدارک کرنا چاہیے اگر گناہ کا ارتکاب ہو تو استغفار اور تعوذ یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیئے۔
۲۔وہ اعمال پر خودپسندی کی دعوت دے گا تاکہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائے ارشاد ربانی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَى لَهُمْ۔[محمد: 25]،
’’جو لوگ راہِ ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ دے کر پھر گئے شیطان نے یہ کام اُن کو اچھا کردکھایا اور انہیں لمبی عمر کا وعدہ دیا۔‘‘
شیطان تمہیں رمضان میں کیے گئے اعمال کے سلسلے میں یہ بتائے گا کہ رمضان کے اعمال اب تمہارے لیے کافی ہے اور مزید کی ضرورت نہیں، لہٰذا خبردار رہیئے!
۳۔ غروروگھمنڈ اور لمبی امید
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلا غُرُورًا۔[النّساء: 120]
’’وہ ان کو وعدے دیتا ہے اور امیدیں دلاتا ہے، اور جو کچھ شیطان انہیں وعدے دیتا ہے وہ دھوکا ہی دھوکا ہے۔‘‘
کم ہمتی اور پست حوصلگی سے دور رہیئے:
رمضان کے بعد پانچ چیزوں پر اہتمام اور کسی بھی حال میں ان پانچ چیزوں میں کوتاہی نہ کرنے پر اتفاق کرنا ضروری ہے؛ تاکہ ہمارے دل ایمان پر قائم اور ثابت قدم رہے۔
۱۔ باجماعت پانچوں نمازوں کی اور خاص طور پر فجر کی پابندی۔
۲۔ قرآن کریم کی یومیہ تلاوت۔
۳۔ یومیہ اذکار کا ورداور خالی اوقات میں اللہ کا ذکر۔
۴۔ ایسی چیز اور ایسے دوست وساتھی کا انتخاب جو اللہ کی اطاعت میں ہمارے لیے معین ومددگار ثابت ہو، کیونکہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،اور قیامت کے دن متقین کے علاوہ دوست دوستوں کے دشمن ہونگے۔
۵۔ دعاء کے لیے خاص وقت کا تعین: فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔[غافر: 60]
’’اورتمہارے پروردگار نے فرمایا ہے تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا‘‘
دعا یہ کرے کہ اللہ تعالیٰ طاعت وبندگی پر قائم وثابت قدم رکھے۔