”شبِ قدر کے معنی“
“قدر”کے معنی”عظمت و شرف”کے ہیں-اور اس رات کو”شبِ قدر”کہنے کی وجہ”اس رات”کی “عظمت و شرف”ہے-
“قدر” کے دوسرے معنی”تقدیر و حکم”کے بھی آتے ہیں-“اس رات میں” تمام مخلوقات”کے لئے جو کچھ”تقدیر ازلی” میں لکھا ہے اس کا جو حصہ”اس سال رمضان”سے” اگلے سال رمضان”تک پیش آنے والا ہے وہ “ان فرشتوں”کے حوالے کر دیا جاتا ہے٫جو “کائنات”کی “تدبیر اور “تنفیز امور” کے لیے مامور ہیں-
بعض حضرات نے جو “لیلہ المبارکہ” سے “نصف شعبان”یعنی “شبِ برءات کی “پندرہویں شب” مراد لی ہےتو وہ اس کی توجیہ یہ پیش کرتے ہیں کہ”ابتدائ فیصلے”امور تقدیر”کے”اجمالی طور” پر”شبِ برءات” میں ہو جاتے ہیں پھر ان کی تفصیلات”لیلہ القدر”میں لکھی جاتی ہیں-
اس کی تائید”حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ” کے ایک قول سے ہوتی ہے-“آپ رضی اللّٰہ عنہ”نے فرمایا” کہ” اللّٰہ تعالٰی” سال بھر کے”تقدیری امور”کا فیصلہ تو”شبِ برءات”یعنی” نصف شعبان” میں کر لیتے ہیں اور”شبِ قدر”میں یہ فیصلے”فرشتوں”کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں- (تفسیر مظہری)
اور یہ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے کہ”امور تقدیر”کے فیصلے”اس رات”میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ”اس سال”میں جو”امور تقدیر”نافذ ہونے ہیں وہ “لوح محفوظ”میں سے نقل کر کے “فرشتوں”کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں اور اصل “نوشتہ تقدیر”ازل سے “لوح محفوظ”میں لکھا جا چکا ہے-( معارف القرآن ص792 جلد 8)
“شبِ قدر کیا ہے؟”
“رمضان المبارک” کے “آخری عشرے” کی “طاق راتوں”21٫23٫25٫27٫اور29 کی راتوں میں سے ہر رات شبِ قدر ہے-جو بہت ہی “خیر وبرکت” کی رات ہے جو” ہزار مہینوں”سے افضل”ہے- 1000مہینوں کے 83 سال اور 4ماہ ہوتے ہیں-خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں “یہ رات” نصیب ہو جائے-اس رات “جس شخص” کو بھی “شبِ قدر” نصیب ہو جائے اور وہ “اس رات کو” عبادت”میں گزار دے تو گویا اس نے”80 سال 4ماہ”عبادت”میں گزار دیئے-(اللہ تعالیٰ ہمیں یہ رات نصیب کرے آمین)
“اللّٰہ سبحانہ وتعالی” کا اس”امت کے لئے”حقیقت میں” بہت ہی بڑا “انعام”ہےکہ یہ نعمت مرحمت فرمائی-
“در منثور”میں “حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ”سے”حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا یہ “ارشاد مبارک” نقل کیا گیاہے کہ”شبِ قدر “اللّٰہ تعالٰی”نے” میری امت” کو “مرحمت” فرمائ ہے٫یہ پہلی “امتوں کو نہیں ملی-
“اس انعام کا سبب کیا ہوا؟”
بعض “احادیثِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میں وارد ہوا ہے کہ”نبیء اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے”بنی اسرائیل”کے “ایک شخص”کا ذکر فرمایا”کہ ایک ہزار ماہ تک وہ جہاد کرتا رہا”اسی طرح”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے پہلی امتوں”کے” نیک لوگوں” کو دیکھا کہ وہ”ہزاروں سال تک ‘عبادت” کرتے رہے٫اس پر “صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کو ان لوگوں پر “رشک آیا تو “اللہ تعالیٰ” نے “اس امت” کے لئے “لیلہ القدر” کے طور پر “5 راتوں” کا نزول فرمایا_(سبحان اللّٰہ)
“امت محمدیہ”پر “شب قدر” کا انعام”
ایک روایت کے مطابق”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،”نے” بنی اسرائیل”کے “4” حضرات کا ذکر فرمایا کہ”1-“حضرت ایوب علیہ السلام٫2-“حضرت زکریا علیہ السلام”٫3-حضرت حزقیل علیہ السلام”4-“اور حضرت یوشع علیہ السلام” یہ سب “حضرات”80-80سال تک”عبادتوں”میں مشغول رہے اورپلک جھپکنے کے برابر بھی “اللّٰہ تعالٰی”کی نافرمانی نہیں کی-اس پر “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کو حیرت ہوئ اور “ان حضرات”پر رشک آیا تو” اللہ تعالیٰ”کے حکم سے “حضرت جبرائیل علیہ السلام” حاضر خدمت ہوئے اور”سورہ القدر” سنائ- جس سے “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کو دلی خوشی ہوئی-
بحرحال”سورہ القد”کے نازل ہونے کے اسباب کچھ بھی ہوں”امت محمدیہ”کے لئے “اللّٰہ جل شانہ”کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے٫”یہ رات اللّٰہ تعالیٰ”کا عطیہ ہے-اور اس میں عمل بھی “اللّٰہ تعالٰی”کی توفیق”ہی سے میسر ہے-
“علامہ خطابی رحمۃ اللہ”کہتے ہیں”ثواب کا یقین کر کے”بشاشت قلب” سے “شبِ قدر” کی راتوں میں “عبادات”کے لئے کھڑا ہو٫بوجھ سمجھ کر بد دلی کے ساتھ نہیں-جس قدر ثواب کا یقین ہوگا اتنا ہی” عبادت “میں “مشقت” کا برداشت کرنا آسان ہوگا-
“شبِ قدر” کی عبادت سے کون سے گناہ معاف ہوتے ہیں-؟
“علماء کرام کے نزدیک “گناہوں” سے مراد”صغیرہ گناہ” ہیں کیونکہ “قرآن پاک”میں جہاں ” کبیرہ گناہوں” کا ذکر آتا ہے”الا من تابہ” کے ساتھ ذکر کیا ہے- اسی بنا پر ‘علماء کرام” کا اجماع ہے کہ “کبیرہ گناہ” بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے-
“توبہ” کی حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ گناہوں پر ندامت ہو اور آئندہ “گناہ” نہ کرنے کا عزم ہو٫اور اگر دوبارہ “گناہ”ہو جائے٫توبہ ٹوٹ جائے ( جان بوجھ کر نہ ہو) تو دوبارہ فورا توبہ کر لے- اس کے لئے شبِ قدر ہو یا قبولیت کا کوئ اور موقع ہو اپنی” بد اعمالیوں” سے” سچے دل سے”٫پختگی کے ساتھ٫”دل اور زبان” سے توبہ کر لے تاکہ”اللّٰہ” کی “رحمت کاملہ” متوجہ ہو اور “صغیرہ و کبیرہ”سب گناہ معاف ہو جائیں-(فضائل رمضان المبارک ص38،)
( جاری ہے)
حوالہ: تحفہ رمضان
مرسلہ:خولہ بنت سلیمان