رشوت کی رقم سے کاروبار کرنا

فتویٰ نمبر:436

سوال :اگر کسی شخص کے پاس اوپر کی کمائی ہو(سود کی رقم نہ ہو)اور وہ صرف اس اوپر کی کمائی (جس میں کوئی دوسرا حلال مال نہ ملایا گیا ہو)سے کوئی جائز کاروبار شروع کرےاب اس کاروبار سےجو نفع آئے گا وہ حلال ہوگا یا حرام؟

تنقیح :ان کے کام کی نوعیت کیا تھی؟

جواب تنقیح:جس کام کی ان کو حکومت سے تنخواہ ملتی تھی اس کام کو کرنے پر اپنی تنخواہ کے علاوہ الگ سے پیسے بھی لیتے تھے۔

الجواب باسم ملہم الصواب

اول یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو مال کسی سے ظلما بلا کسی حق کے لیا جائے شرعا وہ رشوت کہلاتا ہے، رشوت لینا حرام ہے،رشوت لینے والے کے لیے اس مال میں کسی قسم کا کوئی تصرّف کرنا ،اس سے فائدہ اٹھانا ،جیسے منافع کمانا یہ ناجائز اور حرام ہے، ان کے مالکوں کولوٹانا ،اگر نہ ہوں تو وارثوں کو لوٹانا واجب ہے، اگر مالک کو نہ جانتا ہو یا لوٹانا ممکن نہ ہو پھر بھی اس حرام مال سے چھٹکارا حاصل کرنا لازم ہےاس طرح کہ فقیروں کو بلا نیت ثواب تقسیم کرے،کیونکہ حرام مال میں ثواب کی نیت کرنا بھی گناہ ہے۔

حرام مال سے کاروبار کرنا

ناجائز طریقے سےلیا گیا مال واجب الاداء مال ہے جس کو اس کے مالک کو لوٹانا واجب ہے لوٹانے سے پہلے اس سے کوئی کاروبار کرنا جائز نہیں اور لوٹانے کے بعد اگر کوئی کاروبار کیا جائے تو وہ جائز اور اس سے حاصل ہونے والا منافع بھی جائز ہےتاہم اگر کسی نے اس مال کوواپس کرنے سے پہلے کاروبار میں لگادیا تو فقھاء نے حرام مال سے سودا کرنے کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں:

۱۔ سودے میں پہلے رشوت کے پیسے ادا کرے پھر مال خریدے۔

۲ ۔ رشوت کے پیسوں کی طرف اشارہ کرکے مال خریدے پھر پیسے ادا کرے۔

۳۔ رشوت کے پیسوں کی طرف اشارہ کرکے سودا طے کرے لیکن پیسے دوسرے ادا کرے (رشوت کے پیسے نہ دے)

۴۔ پیسوں کی طرف مطلقا اشارہ نہ کرے بس مال خریدے اور رشوت کے پیسے ادا کردے۔

۵۔ دوسرے پیسوں کی طرف اشارہ کرکے سودا طے کرلے لیکن پیسے رشوت کے ادا کرے۔

امام ابو حنیفہ کے نزدیک رشوت کی رقم اس کے اصل مالک کو لوٹانے سے پہلے اس سے کاروبار کرنا جائز نہیں اگر کرلے اور آمدنی ہوجائے تو واپس کرنے سے پہلے وہ حلال نہیں اگرچہ وہ بعد میں مالکوں کو واپس بھی کردے، کیونکہ اس نے مال حرام سے کاروبار شروع کیا ہے اور منافع بھی مال حرام سے ہے جبکہ امام کرخی رحمہ اللہ نے مذکورہ پانچ صورتوں میں سے پہلی دو صورتوں میں منافع کو ناجائز کہا ہےکیونکہ ان دونوں میں عوض حرام مال سے ہی متعین ہے چاہے وہ پیشگی ادائی سے ہو یا اشارے کے ذریعے ہوتوعوض حرام مال سے ہونے کی وجہ سے سودا جائز نہیں اور نہ اس کا منافع ، جبکہ آخری تین صورتوں میں سودا حرام مال سے متعین نہیں بلکہ اس کی طرف محض اشارہ کر کے مدد لی ہے یا سودے کے بعد اس سے ادائی کی ہے تو ان تین صورتوں میں حرام عوض کا شبہ ہے جو کہ اصل مالک کو مال لوٹانے پر ختم ہوجائے گا اور اس مال سے سودا کرنا اور منافع لینا جائز ہوجائے گا۔

امام صاحب کا جو قول مذکور ہےوہ احتیاط پر مبنی ہے جبکہ امام کرخی کا قول عموم بلوی پر مبنی ہےاس لیے ضرورت شدیدہ کے وقت جب مبتلی بہ کے پاس اس کے علاوہ مال نہ ہواور رشوت کے مال سے کاروبار کرے تو اس قول پہ عمل کیا جاسکتا ہےواضح رہے کہ یہ دونوں قول اس صورت میں ہے کہ جب واجب الاداء رقم لوٹانے سے پہلےمنافع آجائے اگر لوٹانے کے بعد منافع ملے تو بالاتفاق سب فقھاء کے نزدیک یہ منافع جائز ہے ۔

واما اذا کان عند رجل مال خبیث ،فاماان ملکہ بعقد فاسد او حصل لہ بغیر عقد،ولا یمکن ان یردہ الی مالکہ ،یرید ان یدفع مظلمتہ عن نفسہ،فلیس لہ حیلۃ الا ان یدفعہ الی الفقراء۔(بذل المجھود،کتاب الطھارۃ /باب فرض الوضوج۱ص۳۷)

ویردونھا علی اربابھا ان عروفھم والاتصدقوا بھالان سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ ۔(رد المحتار:کتاب الحظر والاباحۃج۶ص۳۸۵)

اما مشایخ الحنفیۃ فذکروا فی الشراء بالمال الحرام خمس صور:

۱۔ ان یدفع النقود المغصوبۃ۔ ۔ ۔ بتلک النقود۔

۲۔ ان یشیر۔ ۔ ینقد الثمن منھا۔

۳۔ ان یشیر۔ ۔ ۔ بغیرھا ۔

۴۔ ان لا یشیر۔ ۔ المغصوبۃ۔ 

۵۔ ان یشیر الی نقود۔ ۔ بالنقود المغصوبۃ ۔

قول الکرخی۔وھو انہ لا یطیب لہ المشتری وربحہ۔ ۔ ۔ بعینہ۔

الفتوی الان علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس۔۔ ۔ ۔ بناء علی قول الامام ابی حنیفہ۔ ۔ ھو الاولی بالترجیح وھو الاحتیاط۔۔ ۔ ۔ الخ

(مستفاد من فقہ البیوع :ج ۲ص۱۰۰۵ ۔۔۔۱۰۱۸)

واللہ الموفق

کتبتہ بنت عبد الباطن غفر لھا

۱جمادی الثانی ۱۴۳۹ھ

۱۷فروری ۲۰۱۸ع

اپنا تبصرہ بھیجیں