قرآن وحدیث میں بہت سے ایسے اعمال کی طرف واضح اشارہ موجود ہے، جو رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا باعث ہیں، ہم درجذیل سطور میں مختصراً دس اصول پیش کرتے ہیں ، جن کی بجا آوری پر الله تعالیٰ کیطرف سے رزق میں برکت وفراوانی کا وعدہ ہے:
توبہ واستغفار
قرآن پاک میں کئی مقامات پر توبہ واستغفار کے ذریعہ رزق میں برکت اور دولت میں فراوانی کا ذ کر ہے، حضرت نوح علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے :﴿فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفاراً، یرسل السماء علیکممدراراً﴾․(سورة النوح، آیت:11-10)
“میں نے ان (قوم) سے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ، بلاشبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر خوببارش برسائے گا، تمہیں مال واولاد کی فراوانی بخشے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گااور نہریں جاری کرے گا۔”
اسی طرح حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو استغفار کی دعوت دی :﴿یقوم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ یرسل السماء علیکممدراراً ویزدکم قوة الی قوتکم ولا تتولوا مجرمین﴾․ (سورہ ہود، آیت:52)
“ اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی مانگو پھر اپنے رب سے رجوع کرو، وہ تم پر خوب برسنے والے بادل بھیجے گا اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا اور ( دیکھو) مجرم بن کر منھ نہ پھیرو۔”
حضرت عبدالله بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “ جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، الله تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرماتے ہیں اور اسے ایسی راہوں سے رزق عطا فرماتے ہیں، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا۔” (ابوداؤد:1518)
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ لوگوں کے ساتھ طلبِ بارش کے لیے نکلے، آپ صرف استغفار کرکے واپس آگئے، لوگوں نے عرض کیا حضرت! ہم نے آپ کو استسقاء کی دعاکرتے سنا ہی نہیں ، آپ نے فرمایا میں نے آسمان سے بارش برسانے والے سے بارش طلب کی ہے، پھر آ پ نے آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی۔ امام حسن بصری ہر اس شخص کو استغفار کاحکم دیتے جو آپ سے خشک سالی، فقر، اولاد کی کمی اور باغات سوکھنے کی شکایت کرتا۔
توبہ واستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اپنے کیے پرشرمندہ ہو آئندہ ترکِ معصیت کا پختہ عزم کرے اور جہاں تک ممکن ہواعمال خیر سے اسکا تدارک کرے، اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو اس کی توبہ کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ صاحب حق سے معاملہ صاف کرے۔ ان شرائط کے بغیرتوبہ بے حقیقت ہے۔
تقوی وپرہیز گاری
تقویٰ الله کے احکام پر عمل او رممنوعات سے اجتناب کا نام ہے تقوی ان امور میں سے ایکہے ، جن سے رزق میں برکت ہوتی ہے ۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ومن یتق الله یجعل لہ مخرجا، ویرزقہ من حیث لا یحتسب﴾․ (سورہ طلاق، آیت:3,2)
“جو الله سے ڈرے گا الله اس کے لیے راہ نکال دے گااور اس کو وہاں سے رزق دے گا، جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔”
حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں کشادگیٴ رزق کے متعلق یہ سبسے مہتم بالشان آیت ہے ، دوسری جگہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ ولو اناھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکت من السماء والارض ولکن کذبوا فاخذنٰھمبما کانوا یکسبون﴾․ (سورة الاعراف:96)
“اور اگربستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے ، تو ہم آسمان وزمین کی برکتوں کےدروازے ان پر کھول دیتے ، لیکن انہوں نے جھٹلایا اس لیے ہم نے ان کی کمائی کیپاداش میں ان کو پکڑ لیا۔”
سورہٴ مائدہ میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ولو انھم اقاموا التوراة والانجیل وما انزل الیھم من ربھملاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم، منھم امة مقتصدة، وکثیر منھم فاستقون﴾․ (سورہمائدہ:66)
“اگر وہتورات اور انجیل او راس (کتاب) کو جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی ہےقائم کرتے، تو انہیں اوپر سے بھی رزق ملتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی ، ا نمیں ایک گروہ ضرور راہ راست پر ہے، لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو فسق وفجور کےمرتکب ہیں۔”
اوپر سورة الاعراف کی آیت میں لفظ “برکات” استعمال کیا گیا ہے، جو برکت کی جمع ہے، اس میںاس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برکتیں مختلف انواع واقسام کی ہوا کرتی ہیں ، نیز یہبات قابلِ ذکر ہے کہ برکت کا مطلب کثرت مال نہیں ، بلکہ کفایت مال ہے ، ورنہ بہتسے لوگ کثرت مال کے باوجود معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں او رمعاشی طور پر بہت سےبہ ظاہر درمیانی درجے کے لوگ انتہائی اطمینان سے زندگی گزارتے ہیں ، امام رازیفرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں آسمان کی برکت سے مراد بارش او رزمین کی برکت سے مرادنباتات ، میوہ جات، مویشی، چوپایوں کی کثرت او رامن وسلامتی ہے ، کیوں کہ آسمانباپ اور زمین ماں کے قائم مقام ہے اور مخلوق خداکی تمام بھلائیوں اور منافع انہیںدونوں سے وابستہ ہیں ، امام خازن کے بقول برکت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز میں منجانب الله خیر پائی جائے۔
عبادت خدا وندی میں انہماک
اسسے مراد یہ ہے کہ عبادت کے دوران بندہ کا دل وجسم دونوں حاضر رہیں ، الله کے حضورمیں خشوع وخضوع کا پاس رکھے، الله کی عظمت ہمیشہ اس کے دل ودماغ میں حاضر رہے،حضرت ابوہریرہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “بلاشبہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم! میری عبادت میں منہمک رہو، میں تیرا دل غنا سے بھردوںگا اورتمہاری محتاجگی کا دروازہ بند کروں گا، اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو تمہارےہاتھوں کو کثرت مشاغل سے بھردوں گا او رتمہاری محتاجگی کا دروازہ بندہ نہیں کروںگا۔”( ابن ماجہ، ج:4107)
توکل علی الله
ارشاد باری ہے : ﴿ومن یتوکلعلی الله فھو حسبہ ان الله بالغ امرہ قد جعل الله لکل شیء قدراً﴾․ (سورہٴ طلاق:3)
“جو الله پر بھروسہ کرے گا ، تو وہ اس کے لیے کافی ہوگا الله اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، الله نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت)مقرر کر رکھا ہے۔”
حضرت عمر ابن الخطاب نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “ اگر تم حسن وخوبی کے ساتھ الله پر توکل کرو، تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ، وہ صبح کے وقت خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کے وقت آسودہ ہو کرلوٹتے ہیں۔” (مسنداحمد، ح:205)
امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ الله پر دل کے اعتماد کو توکل کہتے ہیں، علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ الله پر بھروسہ اور اپنی طرف سے عاجزی کے اظہار کوتوکل کہتے ہیں۔ ملا علی قاری کے بقول اس بات کا یقین کہ موجودات میں صرف الله کیذات مؤثر ہے، کسی چیز کا نفع ، نقصان ،امیری، غریبی، صحت، مرض ، حیات او رموت وغیرہ تمام چیزیں الله تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں ہیں۔
توکل کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کسبِ معاش کی تمام کوششوں کو ترک کر دیا جائے اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا جائے ، خود حدیث مذکور میں نبی کریم صلی الله علیہوسلم نے پرندوں کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تلاشِ رزق میں صبح سویرے نکل جاتے ہیں ،پرندوں کا صبح سویرے اپنے آشیانوں سے نکلنا ہی ان کی کوشش ہے ، ان کی انہیں کوششوںکی وجہ سے الله تعالیٰ ان کو شام کے وقت آسودہ وسیراب واپس کرتے ہیں ، لہٰذا اسبابکا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ اسباب اختیار کرنا عین تقاضائے شریعت ہے ، ایک مرتبہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو چھوڑ دوں اور توکل کر لوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسے باندھو، پھرتوکل کرو۔ ( مسند الشہاب، حدیث نمبر:368/14633)
الله کے راستے میں خرچ کرنا: الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وما انفقتم من شیِء فھو یخلفہ وھو خیر الرزقین﴾․(سورة سبا:39)
“اور جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا اجر اس کے پیچھے آئےگا اور وہ بہترین رازق ہے۔”
دوسری جگہ فرمان جاری ہے:﴿الشیطن یعدکمالفقر ویامرکم بالفحشآء، والله یعدکم مغفرة منہ وفضلا، والله واسع علیم﴾․( سورة البقرہ:268)
“شیطان تمہیںمفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے، مگر الله اپنی طرف سےمغفرت او رفضل ( رزق میں کشادگی اور برکت) کا وعدہ کرتا ہے ، الله بڑی وسعت والااور بڑا علم والا ہے۔”
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے “اے ابن آدم! خرچ کر، میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔” ( ابن ماجہ، ج:2123)
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلال سےفرمایا: “اےبلال! خرچ کرو اور عرش والے سے افلاس کا خوف نہ کرو”۔ ( مشکوٰة،ح:1885)
طالبانِ علوم اسلامیہ پر خرچ کرنا
امام ترمذی اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول الله صلی اللهعلیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ایک بھائی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کیخدمت میں علم ومعرفت حاصل کرنے آیا کرتا تھا اور دوسرا بھائی کسبِ معاش میں لگاہوا تھا، بڑے بھائی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی (کہ میرا بھائی کسبِ معاش میں میرا تعاون نہیں کرتا)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نےارشاد فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ (ترمذی، ح:2448)
علماء نے لکھا ہے کہ علوم اسلامیہ میںمشغول رہنے والے لوگ درج ذیل آیت کریمہ کے مفہوم میں داخل ہیں:﴿للفقراءالذین احصروا فی سبیل الله لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیآء منالتعفف، تعرفھم بسیمٰھم، لا یسئلون الناس الحافا، وما تنفقوا من خیر فان الله بہعلیم﴾․ (سورة البقرة:273)
“اعانت کےاصل مستحق وہ حاجت مند ہیں، جو الله کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑدھوپ نہیں کرسکتے، بے خبر آدمی ان کی خودداری دیکھ کر انہیں غنی خیال کرتا ہے ، تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے او رجو مالتم خرچ کروگے الله اس کو جانتا ہے۔”
صلہ رحمی واقربا پروری
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”جسے وسعترزق اور درازیٴ عمر کی خواہش ہو اسے رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کرناچاہیے۔“ ( صحیح البخاری، کتاب الادب، حدیث:5985)
حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا “جسے درازیٴ عمر،وسعتِ رزق اور بری موت سے چھٹکارہ پانے کی خواہش ہو ، اسے الله سے ڈرنا چاہیے اورشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔” ( مسنداحمد، حدیث:1212)
رحَم سے مراد رشتہ دار ہیں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں رحم کا اطلاق رشتہ داروں پرہوتا ہے، خواہ ان کے درمیان وراثت او رمحرمیت کا تعلق ہو یا نہ ہو، صلہ رحمی کاجامع مفہوم یہ ہے کہ حسب وسعت رشتہ داروں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کا معاملہکیا جائے اور شروروفتن سے انہیں محفوظ رکھا جائے۔
کمزوروں کے ساتھ حسن سلوک
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں کو ان کے کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او ران کی مدد کی جاتی ہے ، حضرت مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سعد نےدیکھا کہ انہیں دیگر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نےارشاد فرمایا
“کمزوروں کے طفیل ہی تم کو رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔” (بخاری، کتاب الجہاد والسیر:179/14,108)
حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے کہ رسولالله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ “ تم لوگ میری رضا اپنے کمزوروں کے اندر تلاش کرو، کیوں کہتمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق ملتا ہے او رتمہاری مدد کی جاتی ہے۔” ( مسنداحمد،198/5، ابوداؤد، حدیث:2591، ترمذی، ابواب الجہاد،1754)
یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کرنا
حضرت عبدالله بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:“پے درپے حجوعمرہ کرو، کیوں کہ یہ فقر او رگناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں ، جس طرح بھٹیلوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے اور حج مبرور ( مقبول) کابدلہ صرف جنت ہے۔” (مسند احمد، حدیث:٧٣٦٦٩،ترمذی، حدیث:٨٠٧)
سورة الواقعة
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
“من قرأ سورة الواقعة في كل ليلة لم تصبه فاقة أبدا فكان بن مسعود يأمر بناتهبقراءتها كل ليلة “
(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی:٦٧٤غیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث:٧٢١،شعب الایمان للبیہقی:٢٥٠٠)
جس نے ہررات سورہ واقعہ کی تلاوت کی اسے کبھی بھی فاقہ نہپہنچے گا اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کوہررات اس سورت کی تلاوت کا حکمدیا کرتے تھے
اللہ حاجتیں پوری فر ماتا ہے:
عطا بن ابی تابعی سے روایت ہے کہ رسولاللہ ﷺ نے فرمایا: جو بندہ دن کے ابتدائی حصہ یعنی علی الصباح سورة یٰسین پڑھے گا، اللہ تعالیٰاس کی حاجتیں پوری فرمائے گا ۔سنن دارمی
الله کے راستے میں ہجرت
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ ومن یھاجرفی سبیل الله یجد فی الارض مراغماً کثیراً وسعة﴾․(سورة النساء:١٠٠)
“جو کوئی الله کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میںبہت سے ٹھکانے اور بڑی وسعت پائے گا۔”
ہجرت دارالکفر ( جہاں امورِ ایمان کی ادائیگی کی آزادی مسلوب ہو) سے دارالایمان کیطرف نکلنے کو کہتے ہیں، حقیقی ہجرت اس وقت ہو گی جب مہاجر کا ارادہ الله کا دینقائم کرکے اسے خوش کرنا ہو اور ظالم کافروں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرنی ہو ۔
بیوی کیلئے نفقہ میں فراخی
رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورتوں کے بارے میںاللہ سے ڈرو کیونکہ وہ تمہاری قید میں ہیں تم نے انہیں اللہ کے عہد و پیمان کےساتھ حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ساتھ تم نے ان کی شرم گاہوں کو حلال بنایاہے لہٰذا تم ان کیلئے لباس اور نفقہ کی فراخی رکھو تاکہ اللہ تمہارے لیے رزقوں میں فراخی دے اور تمہارے لیے عمروں میں برکت عطا فرمائے جو تم چاہو گے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کردے گا۔
اپنی حاجت اور بھوک کو پوشیدہ رکھنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص بھوکا ہو‘ حاجت مند ہو اور وہ لوگوں سے اپنی حاجت کوپوشیدہ رکھے تو اللہ تعالیٰ شانہٗ پر بوجہ اس کے لطف و کرم کے یہ حق ہے کہ اس کوسال کی روزی حلال مال سے عطا فرمائے۔ (مشکوٰۃ)
صلہ رحمی::حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کےنشانات قدم میں تاخیر کی جائے اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔(مشکوٰۃ)(نشانات قدم میں تاخیر کیے جانے سے عمر کی درازی مراد لی جاتی ہے اس لیےکہ جس شخص کی جتنی عمر زیادہ ہوگی‘ اتنے ہی زمانے تک اس کے چلنے سے نشانات قدم زمین پر پڑیں گے اور جو مرگیا اس کے پاؤں کا نشان زمین سے مٹ گیا۔
فقر کو دور کرنے والا کلمہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ننانوے بیماریوں کی دوا ہے جن میں سے کم درجہ کی بیماری فکر وغم ہے۔ (ترمذی)
اگر لاحول ولا قوۃ الاباللہ کے ساتھ لَا مَلْجَأ وَلَا مَنْجَا مِنَ اللہِ اِلاَّ اِلَیْہِ پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسسے ستر بلائیں دور فرمائیں گے جن میں سب سے کم درجہ کی بلاء فقر ہے۔ (مشکوٰۃبحوالہ ترمذی)
تقدیر پر راضی رہنا: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو جو کچھ دیتا ہے اسسے ان کی آزمائش کرتا ہے اگر وہ اپنی قسمت پر راضی ہوجائیں تو ان کی روزی میں برکت عطا فرماتا ہے اور اگر راضی نہ ہوں تو ان کی روزی کو وسیع نہیں کرتا۔ (مسنداحمد)
صبح سویرے کام شروع کرنا:
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: رزق کی تلاش اور حلال کمائی کیلئے صبحسویرے ہی چلے جایا کرو‘ کیونکہ کاموں میں برکت اور کشادگی ہوتی ہے۔ یعنی صبح سویرےحلال کمائی کرنے سے رزق میں برکت پڑتی ہے۔
گرا پڑا لقمہ کھا لینا:
حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نےکہ جس وقت گرپڑے تمہارا کوئی لقمہ تو اٹھالو اور اس کو پونچھ ڈالو جو کچھ اس میںلگا ہو اور پھر اس کو کھاؤ اور نہ چھوڑو اس کوشیطان کے واسطے۔ فرمایا جو کھاناکھاتے وقت دسترخوان سے گری ہوئی چیز کو کھالے ہمیشہ رزق کی فراخی میں رہتا ہے۔ (طب نبوی ﷺ ص۱۰)
الله کی رضا . .!
مفہوم حدیث : حضرت ابو ہریرہ رضی اللهعنہ سے روایت ہے کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
جو شخص الله کے دئیے ہوۓ تھوڑے رزق پر رازی ہو گیا،
الله اس کے تھوڑے سے عمل پر رازی ہو جاۓ گا ..
کتاب الرقائق, مشکوۃ، حدیث ٥٠٣١ ، باب: فقراء کی فضیلت
حضرت عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کےرسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
“وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لایا اور اسے بقدر کفایت رزق دیا گیااور پھر دئیے ہوۓ رزق پر قناعت کرنے کی الله سبحان و تعالیٰ نے اسے توفیق دی”
(صحیح مسلم، زکوٰۃکا بیان، باب: کفایت شعاری اور قناعت پسندی)
اور یہ یاد رکھیں کہ نعمتوں میں جتناشکر ادا کرینگے اتنا ہی اضافہ ہوگا جیسا کے الله کا قرآن میں ارشاد ہے :
لئن شكرتملازيدنكم (سورہ ابراہیم، آیت نمبر٧ )
”اگر تم شکر گزاری کروگے تو اور زیادہ دوں گا “
یہ وہ اصول ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث میں وضاحت ہے کہ ان سے بندہ کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے او راس کی تنگی دور کر دی جاتی ہے ،لیکن انسان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اصل بے نیاز تو الله کی ذات ہے ،انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اس غنی ذات کے سوا پوری دنیا سے بے نیاز ہو جائےاور یہ سمجھ لے کہ جو کچھ اسے ملے گا اس سے ملے گا ، غیر کے آگے ہاتھ پھیلانا بےکار ہے ۔ خدا کی رزاقیت وکار سازی کا یقین دلوں کو قناعت وطمانینت کی دولت سے مالامال کرتا ہے ۔ قانع شخص کسی کے زروجواہر پر نظر نہیں رکھتا، بلکہ اس کی نگاہ ہمیشہپرورد گار عالم کی شان ربوبیت پر رہتی ہے، مال ودولت کی حرص کا خاتمہ نہیں ہوتا،اس لیے قناعت ضروری ہے، کیوں کہ یہی باعث سکون واطمینان ہے ۔ نبی اکرم صلی اللهعلیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تونگری مال واسباب کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ اصل تونگری دل کی تو نگری ہے۔ حضرت ابوذر راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نےمجھ سے ارشاد فرمایا کہ “ ابو ذر! تمہارے خیال میں مال کی کثرت کا نام تو نگری ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر فرمایا: تو تمہارے خیال میں مال کی قلت کا ناممحتاجی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: استغناء دل کی بے نیازی ہے اورمحتاجی دل کی محتاجی ہے۔ ” ( فتح الباری، ج:١١ ، ص:٢٣٢ )