روزے کی نذر مان کےفدیہ دینےکاحکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ !باجی!مجھے یہ پوچھنا ہےکہ ہماری والدہ نےجوانی میں مسائل حل ہونے پہ دو روزے رکھنے کی نیت کی تھی جس میں سے ایک روزہ رہتا ہے ،اب تقریباً 80 سال عمر ہے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ ہونے کی وجہ سے رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ پاتیں ۔۔تو اس کا کیا حل ہے ؟کیا اولاد میں سے کوئی والدہ کے بدلے ان کا منت کا روزہ رکھ سکتا ہے یا کوئی کفارہ دینا ہوگا ؟

جواب:

اگر کسی نے روزے رکھنے کی نذر/ منت مانی ہو تو اس پر وہ روزے رکھنا لازم ہوگا اور جب تک روزے پر قدرت ہو اس وقت تک روزے کے بدلہ فدیہ دینے کی گنجائش نہیں ہوگی،اور نہ کوئی اور اس کے بدلے روزے رکھ سکتا ہے البتہ اگر دائمی بیماری یا انتہائی بڑھاپے کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت بالکل ختم ہوجائے اور مستقبل میں دوبارہ روزے پر قادر ہونے کی امید نہ رہے تو اس صورت میں ہر روزے کے بدلہ ایک فدیہ (صدقہ فطر کی مقدار یعنی پونے دوکلوگندم یا اس کی قیمت کے بقدر )دینا لازم ہوگا اور اگر زندگی میں کسی وجہ سے فدیہ نہ دے سکے تو وصیت کر کے جائے کہ میرے بعد میرے ترکہ میں سے مجھ پر واجب روزوں کا فدیہ ادا کردیا جائے۔ 

لہذا آپ کی والدہ کو چاہیےکہ ہمت کرکے ایک روزہ رکھ لیں اور اگر بالکل ہی ہمت نہ ہو تو ایک روزے کے بدلے اس کا فدیہ دے دیں ۔

الفتاوى الهندية (2/ 65):

“من نذر نذراً مطلقاً فعليه الوفاء به، كذا في الهداية.

ولو جعل عليه حجةً أو عمرةً أو صوماً أو صلاةً أو صدقةً أو ما أشبه ذلك مما هو طاعة إن فعل كذا ففعل لزمه ذلك الذي جعله على نفسه ولم تجب كفارة اليمين فيه في ظاهر الرواية عندنا.

وقد روي عن محمد – رحمه الله تعالى – قال: إن علق النذر بشرط يريد كونه كقوله: إن شفى الله مريضي أو رد غائبي لايخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط .

ويلزمه عين ما سمى، كذا في فتاوى قاضي خان”.

الفتاوى الهندية (1/ 210):

“ولو قال: لله علي صوم سنة، ولم يعين يصوم سنة بالأهلة ويقضي خمسة وثلاثين يوماً ثلاثين يوماً لرمضان وخمسة أيام قضاء عن يوم الفطر والنحر، وأيام التشريق”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 437):

“(ولو قال مريض: لله علي أن أصوم شهرا فمات قبل أن يصح لا شيء عليه، وإن صح) ولو (يوما) ولم يصمه (لزمه الوصية بجميعه) على الصحيح، كالصحيح إذا نذر ذلك ومات قبل تمام الشهر لزمه الوصية بالجميع بالإجماع كما في الخبازية، بخلاف القضاء فإن سببه إدراك العدة”.فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں