رجوع الی القرآن چند تجاویز

مفتی محمد انس عبدالرحیم

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فہم قرآن اور درس قرآن کے حلقوں کو موجودہ مسلم معاشرے میں عام کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

عوام کی ذمہ دارایاں:

جس طرح سائیکل ایک پہیے پر نہیں چل سکتی اسی طرح یک طرفہ محنت اور کوشش سے بھی کوئی منصوبہ کامیابی کے زینے طے نہیں کرسکتا۔ موجودہ حالات میں ضرورت اس مر کی ہے کہ قرآن فہمی کی تحریک میں علماء کرام کی کوششوں کو عوام کا بھی بھرپور تعاون حاصل ہو!!! اور علماء اور عوام دونوں مل کر ’’یک جان دو قالب‘‘ کا منظر پیش کریں۔ علمائے کرام اور ائمہ مساجد قرآن فہمی کاکوئی منصوبہ پیش کرنے جارہے ہوں تو عوام کو دو طریقوں سے ان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا:

۱۔وقت نکالیں!

اپنے مصروف اوقات میں سے کچھ وقت قرآن سیکھنے سمجھنے کے لیے وقف کریں! سوچنے کی بات ہے ہم ٹی وی، موبائل کے سامنے، ہوٹلوں پر اور دوستوں کے ساتھ چوک چوراہوں پر گھنٹوں اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہوتے ہیں تو کیا ان اوقات میں سے کچھ وقت اﷲ کے دین اور خدا کے پیغام یعنی قرآن سمجھنے کے لیے نہیں نکال سکتے؟

اس دنیا میں کوئی بھی کام اور کوئی بھی فن اور ہنر وقت مانگتا ہے۔ وقت نکالا جاتا ہے تو انسان اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ وقت نکالتا ہے تو انسان اپنی بیوی اور والدین کو خوش کرپاتا ہے۔ اپنے کھانے پانی کے لیے انسان وقت نکالے بغیر رہ نہیں سکتا۔ کیونکہ اس کے بغیر انسان زندگی سے ہار سکتا ہے۔ حالانکہ غور کیا جائے تو دین اور قرآن کی سمجھ ہمارے لیے ان سب چیزوں سے زیادہ قیمتی شے ہے تو کیوں نہ اس کے لیے تھوڑا وقت فارغ کیا جائے! یقین جانیے! اگر ہم نے دین کے لیے وقت نکالنا شروع کردیا تو ہماری دنیوی مصروفیات میں بھی حیرت انگیز طور پر مثبت تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی۔

ہمارے اسلاف نے تو دین کی تحصیل کے لیے اتنے دور دور کے سفر کیے اور اتنی کڑی محنتیں کیں کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد نے اشاعت اسلام کے لیے اپنی قیمتی جانوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ ہم سے تو صرف وقت کی قربانی دینے کا تقاضہ کیا جارہا ہے یہ کوئی بھاری مطالبہ نہیں، نہایت آسان، سود مند اور سستا سودا ہے۔

۲۔ دفاع کریں!

بعض علاقوں میں درس قرآن اور قرآن فہمی کی کوششوں کو ممکن ہے اچھی نظروں سے نہ دیکھا جائے اور اس کی راہ میں کانٹے بچھانے کی مختلف طریقوں سے کوششیں کی جائیں… ایسے لوگ دین کے لبادے میں بھی ہوسکتے ہیں اور سوٹ بوٹ اور ماڈرن طبقے کے روپ میں بھی… ایسی صورت میں عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ علماء کا دفاع کریں اور منافرت اور تصادم سے بچتے ہوئے مہذب انداز میں خوش اسلوبی کے ساتھ مخالفین کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔

علمائے کرام کی ذمہ داریاں:

علمائے کرام کے مختلف طبقات ہیں: کچھ علمائے کرام مسجد کی امامت سے منسلک ہیں۔ کچھ مدارس میں تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ کچھ مدارس کے نظم و نسق کے ذمہ دار ہیں اور کچھ فضل خداوندی سے ان سب خدمات سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف دینی مدارس کے معزز طلباء کرام ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دینی مدارس سے فاضل تو ہیں لیکن کاروبار یا کسی اور دنیوی مشغلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب حضرات اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قرآن فہمی کی تحریک کے روح رواں بن سکتے ہیں۔

فہم قرآن کورسز کا انعقاد:

 ائمہ مساجد اپنے جمعہ کے خطبات کو درس قرآن کے منظم منصوبے میں شامل کرسکتے ہیں۔ اسلامی مہینوں کے اعتبار سے آیات قرآنیہ کا چناؤ کرکے ان کا درس دے سکتے ہیں۔ سال کے باون جمعوں میں باون مختلف قرآنی موضوعات پر خطبہ دے سکتے ہیں۔ احکام کی آیتوں کا انتخاب کرکے باون جمعوں تک قرآنی احکام پر درس تیار کرسکتے ہیں۔ کوئی شارٹ کورس تیار کرسکتے ہیں جس کا درس صرف جمعہ جمعہ کو ہوا کرے کورس کی پلاننگ اور درس کا پہلے سے اعلان بھی کردیا جائے تو بہتر!

بعض مساجد میں اتوار یا پیر کے دن درس حدیث کا بھی اہتمام ہے۔ یہ سلسلہ نہایت مفید ہے۔ اس کو جاری رہنا چاہیے! بلکہ جہاں جمعہ کے علاوہ کسی اور دن درس نہیں ہوتا۔ وہاں بھی عوامی سطح اور ذوق کے لحاظ سے کسی بھی قسم کا درس یا شارٹ کورس ضرور متعارف کروانا چاہیے!

رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں تراویح کے بعد تراویح کے شرکاء کے لیے اسی طرح اعتکاف کے دوران معتکفین کے لیے درس قرآن یا فہم دین کا کوئی سا بھی شارٹ کورس متعارف کروایا جا سکتا ہے۔

دینی مدارس کے ذمہ داران، اپنے اپنے مدارس میں گرمیوں کی چھٹیوں اور ماہ رمضان کی تعطیلات کو عوام کے لیے کار آمد بنانے کا پروگرام بنائیں۔ گرمی کی چھٹیوں میں اسکول کالج کے طلبہ وطالبات کے لیے چالیس روزہ سمر کیمپ، چالیس روزہ قرآنی عربی کورس متعارف کروائیں۔ جبکہ ماہ رمضان کو بھی عوام کی دینی پیاس بجھانے کے مصرف میں خرچ کیا جائے۔ بعض مدارس میں شعبان اور رمضان دو ماہ پر مشتمل دورہ تفسیر و ترجمہ قرآن کا کامیاب تجربہ سالہا سال سے جاری ہے۔

خود راقم الحروف نے حضرت مفتی سعید احمد صاحب مدظلہ کی دعاؤں اور شفقت سے اپنے جیسے ایک ننھے سے ادارے میں مرد و خواتین کے لیے ’’قرآنی عربی کورس‘‘ کا آغاز کر رکھا ہے۔ جو سال بھرجاری رہے گا ۔ کلاس صرف اتوار یا جمعہ کو ہوگی۔

توجہ طلب امور:

یہ کام تو عوامی سطح کے ہیں اور عمومی بھی ہیں۔ ہر ادارہ اور تمام علماء اور بڑے طلبہ یہ خدمات شروع کرسکتے ہیں۔ لیکن کچھ کام ایسے بھی ہیں جو محنت طلب اور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں جو علماء کرام اور معزز طلبہ کرام کی خصوصی توجہات چاہتے ہیں۔ چند اہم امور پیش خدمت ہیں:

 ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے خالصتاً فطری طریقہ بھی ہے کہ انہوں نے ہر دور میں اپنے زمانے کے حالات، اپنے دور کے فتنوں اور اپنے گردو پیش میں پائے جانے والے افکار و نظریات اور رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے دین کی نت نئی خدمات کیں۔ جس کی ایک زندہ مثال منطق، فلسفہ اور یونانی علوم کا نصاب تعلیم میں شامل کرنا ہے۔ یہ فنون خالصتاً عقلی بلکہ قرآن و سنت اور مذہب سے متصادم سمجھے جانے والے فنون شمار کیے گئے لیکن علماء کرام نے ان فنون کو اسلامی قالب میں ڈھال لیا۔ جب عقل پرستوں نے عقلیت اور فلسفہ کے دروازے سے اسلام پر حملے شروع کیے تو علمائے کرام نے انہیں علوم کی مدد سے ان کے دانٹ کھٹے کیے اور ان پر ایسی یلغار کی کہفلسفے کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوگیا۔ ان کی ہوا اکھڑ گئی اور بالآخر ان کے دماغ ٹھیک ہوگئے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بھی اپنے اسلاف کی روایات پر چلتے ہوئے علمائے کرام کو اپنی درسیات کے ساتھ کچھ چیزوں پر اجتماعی محنت کرنے کی ضرورت ہے جن کا موجودہ حالات و واقعات اور موجودہ افکار و نظریات سے گہرا تعلق ہے۔

٭… دور حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس قدر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے مغربی ممالک کے عوام میں اسی قدر اسلام اور مسلمانوں کے حالات سے دلچسپی پیدا ہورہی ہے اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ اسلام، مغربی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔ ایک دور تھا جب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی عیسائیوں کی تھی۔ لیکن حالیہ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا میں مذہب کے پیروکاروں میں سب سے بڑی تعداد اسلام کے پیروکاروں کی ہے۔ غیر مسلموں کے اندر اسلام کا مطالعہ کرنے کا جذبہ بہت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ایسے ماحول میں علمائے کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی تشریحات اس انداز سے کریں کہ گویا ان کے مخاطب مسلمان نہیں۔غیر مسلم بھی ہیں۔

٭… اس کے علاوہ ان تمام سوالات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے جو مغرب کی طرف سے اسلام یا اسلام کے کسی حکم پر اٹھائے جارہے ہیں۔ ان میں سے اکثر سوالات منفی پروپیگنڈے اور تصویر کا غلط رخ پیش کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ کچھ اعتراضات نادانی اور کم علمی کے باعث پیش آئے ہیں جبکہ بہت سے سوالات ایسے بھی ہیں جو نئے ہی نہیں بلکہ قدیم زمانے کی وہ فرسودہ باتیں ہیں جو عقل پرست فرقوں اور ملحد لوگوں کو پیش آئے اور علماء ان کا جواب دے چکے۔ چونکہ قرآن کریم کا ایک موضوع مخالفین کے سوالات کا جواب دینا بھی ہے اس لیے علماء کرام اس کام کو اپنی ذمہ داریوں میں شامل سمجھیں!

٭… ہمارے اسلاف نے ہر دور میں نت نئے افکار اور باطل نظریات کی بیخ کنی کا کام کیا ہے۔ موجودہ دور کے زہریلے فتنے سیکولرازم، دہریت، عقل پرستی، قوم پرستی، فرقہ پرستی، انکار حدیث، انکار جہاد اور آزادیٔ رائے ہیں۔ قرآن کریم میں جیسے بت پرستی، یہودیت اور عیسائیت کے جواب موجود ہیں، موجودہ نومولود فتنوں کا توڑ بھی موجود ہے۔ فتنے اسلام اور مسلمانوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو مسخ کر رہے ہیں اور اسلام مسجد، مدرسہ اور چار دیواری میں بند کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ علمائے کرام کو ان کے خلاف منظم انداز میں کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

٭… اس کے علاوہ وقت کی ایک اہم ضرورت یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ دین اور دین کے احکام کو آسان سے آسان انداز میں پیش کیا جائے۔ اسلام کی آسانیوں اور خوبیوں کو اجاگر کیا جائے۔ مشکل مسائل کی بجائے آسان مسائل عوام کے سامنے پیش کیے جائیں۔ وعید کی بجائے ترغیبات کا زیادہ سے زیادہ مدد لی جائے۔ یسروا ولا تعسرو بشروا ولا تنفروا کے تحت فقہی مسائل میں سخت اور دشوار موقف کی بجائے آسان اور سہل موقف اپنایا جائے۔ ایسا کوئی موقف نہ اپنایا جائے جو قابل عمل نہ ہو۔ فروعی اختلافات میں غلو اور تشدد کا عنصر ختم کرکے محبت اور رواداری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ کیونکہ عقائد میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں لیکن فروعی اختلافات میں مسلک کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف رائے کی گنجائش بہر صورت موجود رہتی ہے۔اختلاف امتی مرحمۃ یہ اسلام کی خوبی ہے۔ اسے خوبی رہنے دیا جائے۔ اسے منافرت اور تصادم کیآگ میں نہ دھکیلا جائے۔

اسلام اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ مسلمانوں پر بیک وقت چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ تمام توپوں کا رخ محمد کے نام لیواؤں کی طرف ہے۔ دشمنوں نے اسلام کے خلاف ایسے ایسے مورچے قائم کر رکھے ہیں جہاں ان کو مقابلے میں دور دور تک کوئی حریف دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے نازک اور صبر آزما حالات میں علمائے کرام اور انبیاء کے جانشینوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ انہیں پہلے سے زیادہ مستعدی اور ہوشیاری دکھانے کی ضرورت ہے۔ اور پہلے سے زیادہ اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

دوستوں کو میری کچھ باتیں شاید موضوع سے ہٹ کر لگیں۔ لیکن قرآن فہمی کی عالمگیر مہم چلانے اور مسلمانوں کے اصلاح احوال کے لیے یہ سب باتیں لازم ملزوم ہیں۔

خدا کرے یہ باتیں ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔ (آمین

٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں