صدقۂ فطر کا بیان

صدقۂ فطر کا بیان

جو مسلمان اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، لیکن اس کے پاس نصاب کے بقدر ضرورت سے زائدسامان ہے تو اس پر صدقۂ فطرواجب ہے، چاہے وہ تجارت کامال ہو یا تجارت کا نہ ہو اور چاہے سال پورا گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔

مسئلہ:عید کے دن طلوع فجر کے وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے، تو اگر کوئی فجر کا وقت آنے سے پہلے ہی مرگیا تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں، اس کے مال میں سے نہیں دیا جائے گا۔ بہتر یہ ہے کہ جس وقت لوگ نماز کے لیے عیدگاہ جاتے ہیں، اس سے پہلے ہی صدقہ دے دے۔عام طور پر لوگ رمضان میں ہی صدقہ فطر ادا کردیتے ہیں ،یہ بھی جائز ہے۔اگر کسی نے عید کے دن بھی صدقۂ فطر نہیں دیا تو معاف نہیں ہوگا،بعدمیں کسی دن دے دینا ضروری ہے۔

مسئلہ:مرد پر اپنی اور نابالغ اولاد کی طرف سے صدقۂ فطر کی ادائیگی ضروری ہے، بشرطیکہ نا بالغ اولاد کے پاس اپنا مال نہ ہو،( اگرنابالغ بچے کے پاس بقدرِ نصاب مال ہوتو اس کے مال میں سے صدقۂ فطر ادا کیاجائے، لیکن اگر بچہ عید کے دن صبح ہونے کے بعد پیدا ہوا تو اس کی طرف سے صدقۂ فطر واجب نہیں۔ )جبکہ عورت پر صدقۂ فطر صرف اپنی طرف سے واجب ہے، کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ اولاد کی طرف سے، نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے، نہ کسی اور کی طرف سے۔]

مسئلہ:صدقۂ فطر کے مستحق بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں،مگر صدقۂ فطر کافر فقیر کو بھی دینا جائز ہے لیکن اس کوزکوٰۃ دینا جائز نہیں۔

مسئلہ:صدقۂ فطر میں اگر گیہوں یا گیہوں کا آٹا یا گیہوں کا ستودے تو پونے دو سیرسے آدھی چھٹانک زیادہ،بلکہ احتیاطاً پورے دوسیر یااس سے بھی کچھ زیادہ دے دینا چاہیے، کیونکہ زیادہ ہونے میں کوئی حرج نہیں اور اگر جویا جو کا آٹا دے تو اس کا دوگنا دینا چاہیے۔اگر گیہوں اورجونہیں دیے، بلکہ اتنے گیہوں اور جو کی قیمت دے دی تو یہ سب سے بہتر ہے۔اگر گیہوں اور جوکے سوا کوئی اور اناج دیا جیسے: چنا، جوار، چاول تو اتنا دے کہ اس کی قیمت گیہوں یاجو کے مذکورہ نصاب کی قیمت کے برابر ہونی چاہیے۔

مسئلہ:کسی کے پاس رہنے کے لیے لاکھو ں روپے مالیت کا گھر اور پہننے کے لیے قیمتی کپڑے ہیں مگر ان میں سونا چاندی نہیں لگا ہوا،اور گھر میں لاکھوں کا ضروری سامان بھی ہے،جو کہ کام میں آیا کرتا ہے ،یا کچھ سامان ضرورت سے زیادہ ہے، زیور بھی ہے،لیکن وہ اتنا نہیں ہے،جس پر زکوٰہ واجب ہوتی ہے تو صدقۂ فطر واجب نہیں۔

مسئلہ:کسی کے دو گھر ہیں، ایک میں خود رہتا ہے اور ایک خالی ہے یا کرایہ پر دے دیا تو یہ دوسرا مکان ضرورت سے زائد ہے، اگر اس کی قیمت اتنی ہو جتنی پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہے اور ایسے آدمی کو زکوٰۃ دینا بھی جائز نہیں، البتہ اگر اسی پر اس کا گزارہ ہو تو یہ مکان بھی ضروری سامان میں داخل ہوجائے گا اور اس پر صدقۂ فطر واجب نہ ہوگا اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا اوراس کو زکوٰۃ دینا بھی درست ہوگا۔

مسئلہ:کسی کے پاس ضرورت سے زائد سامان ہے، لیکن وہ قرض دار بھی ہے تو قرضہ نفی کرکے دیکھا جائے، اگر اتنی قیمت کا سامان باقی رہے جتنے میں زکوٰۃ یا صدقہ واجب ہوجاتا ہے تو صدقۂ فطر واجب ہے اور اگر اس سے کم بچے تو واجب نہیں۔

خلاصہ یہ ہوا کہ جس کے لیے زکوٰۃ اور صدقہ واجبہ کا لینا درست ہے، اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں اور جس کے لیے صدقہ اور زکوٰۃ کا لینا درست نہیں، اس پر صدقۂ فطر واجب ہے۔

مسئلہ:ایک آدمی کا صدقۂ فطر ایک ہی فقیر کو دیدے یا تھوڑا تھوڑا کرکے کئی فقیروں کو دے دے، دونوں باتیں جائز ہیں۔

مسئلہ:اگر کئی آدمیوں کا صدقۂ فطر ایک ہی فقیر کو دے دیاتو یہ بھی درست ہے، لیکن وہ اتنے آدمیوں کا نہ ہو جو سب مل کر نصابِ زکوٰۃ یا نصاب صدقۂ فطر تک پہنچ جائے، اس لیے کہ ایک شخص کو اتنا دینا مکروہ ہے۔

مسئلہ:جس نے کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھے اس پر بھی صدقۂ فطرواجب ہے اور جس نے روزے رکھے اس پر بھی واجب ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

مسئلہ:اگر کسی نابالغ لڑکی کا نکاح کردیا جائے اور وہ شوہر کے گھر رخصت کردی جائے تو اگر وہ لڑکی مالدار ہے تب تو اس کے مال میں صدقۂ فطر واجب ہے اور اگر مالدار نہیں تو دیکھنا چاہیے کہ اگر وہ شوہر کی خدمت یا اس کی دل جوئی کے قابل ہے تو اس کا صدقۂ فطر نہ باپ پر واجب ہے نہ شوہر پر نہ خود اس پر اور اگر وہ شوہر کی خدمت یا اس کی دل جوئی کے قابل نہیں تو اس کا صدقۂ فطر اس کے باپ کے ذمہ واجب رہے گا اور اگر شوہر کے گھر میں رخصت نہیں کی گئی تواگر چہ وہ شوہر کی خدمت یا اس کی دل جوئی کے قابل ہو بہر حال اس کا صدقۂ فطر اس کے باپ پر واجب ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں