سفر شہادتِ حسین رضی اللّٰہ عنہ لمحہ بہ لمحہ(آخری حصہ)

خلافتِ اسلامیہ(راشدہ) پر ایک”حادثہء عظیمیہ“

“حضرت عثمان غنی ( ذی النورین) رضی اللّٰہ عنہ” کےسانحہء شہادت”کے بعد سے”فتنوں” کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا-اسمیں”منافقین کی سازشیں٫خوارج کا فتنہ اور بھولے بھالے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے واقعات نمایاں ہیں- انھیں میں مسلمانوں کے درمیان ( مسلمان بھی وہ جو “خیرالخلائق”بعد الانبیاء) کہلانے کے مستحق ہیں) ان کے درمیان آپس میں تلوار چلتی ہے-

 خلافت کا سلسلہ جب  امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ تک پہنچتا ہے تو حکومت میں  خلافتِ راشدہ کا رنگ نہیں رہتا٫ جو خلفائے راشدین کی خلافت کو حاصل ہے-  امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ  کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ زمانہ سخت فتنے کا ہے٫ آپ رضی اللّٰہ عنہ “اپنے بعد” کے لئے کوئ ایسا “امیر”نامزد کریں کہ پھر “مسلمانوں” کے درمیان ”تلوار“ نہ نکلے،اور خلافتِ اسلامیہ پارہ پارہ ہونے سے بچ جائے-(باقتضاء وقت و حالات یہاں تک کوئ نامعقول یا غیر شرعی بات بھی نہ تھی-) لیکن اس کے ساتھ ہی  آپ رضی اللّٰہ عنہ  کے بیٹے”یزید” کا نام” مابعد خلافت تجویز کر دیا گیا- جس کے لئے”کوفہ”سے  40 مسلمان ( بظاہر) بھیجے جاتے ہیں یا خود آتے ہیں ( واللہ اعلم)کے  امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ  سے درخواست کریں کہ آپ رضی اللّٰہ عنہ  کے بعد پوری اسلامی دنیا میں ( العیاذ باللہ) آپ رضی اللّٰہ عنہ کے بیٹے سے زیادہ کوئ فعال٫قابل اور ملکی سیاست کا ماہر نظر نہیں آتا٫اس کے لئے بیعتِ خلافت کی جائے- ” حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کو شروع میں کچھ تامل ہوا٫ انہوں نے اپنے مخلصین سے مشورہ بھی کیا جس میں اختلاف بھی پایا گیا- کوئ موافقت میں رائے دے رہا تھا اور کوئی مخالفت میں-”یزید“کا فسق و فجور بھی اس وقت تک کھلا نہیں تھا- بالآخرامیر المومنین نے اپنے بیٹے کے حق میں فیصلہ دے کر” اسلام میں “ولیعہدی” کی بنیاد ڈالدی-انا للہ و انا الیہ راجعون)

“اسلام پر بیعت یزید کا سانحہ”

“شام و عراق میں”ڈرا دھمکا کر اور لالچ دے کر٫کس کس طرح”یزید” کی بیعت لی گئ اور یہی چرچا کر کے اور یہ شہرت دیے کر  کوفہ و ٫بصرہ میں بھی”یزید کی بیعت لے لی گئ-

اب”مفسدین” نے حجاز کا رخ کیا-”امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ“کی طرف سے “امیر مدینہ” “مروان” کو اس کام کے لئے مامور کیا گیا- اس نے خطبہ دیا اور لوگوں سے کہا “امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ- یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بعد کے لئے”ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنھما”کی سنت کے مطابق”یزید”کی خلافت”پر بیعت لے لی جائے-“عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”کھڑے ہوئے اور کہا “یہ غلط ہے-یہ ابو بکر وعمر رضی اللّٰہ عنھما”کی سنت نہیں ہے بلکہ”قیصر و کسریٰ” کی سنت ہے-“انہوں نے”خلافت” اپنی اولاد میں منتقل نہیں کی-(اگر وہ چاہتے تو ایسا ہو سکتا تھا-راقم)- اور نہ اپنے کسی رشتے داروں میں-

“حجاز کے عام مسلمانوں کی نظریں”اہل بیت اطہار پر” لگی ہوئیں تھیں٫ خصوصاً حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ”پر جن کو وہ بجا طور پر”حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ” کے بعد خلافت کا مستحق سمجھتے تھے-اور اس میں”حضرت عبداللہ بن عمر٫ حضرت عبداللہ بن ابوبکر٫ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر٫ حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین”کی رائے کے منتظر تھے کہ وہ کیا کرتے ہیں-

ان”محترم حضرات” کے سامنے اول تو” کتاب وسنت” کا اصول کہ”خلافتِ اسلامیہ٫ خلافتِ نبوت” ہے اس میں وراثت کا کچھ حصہ نہیں کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو بلکہ”آزادانہ اور منصفانہ انتخاب سے”خلیفہ” کا تقرر ہو- دوسرے انکی نگاہ میں “یزید کے عیش و عشرت” اور اس کے”زاتی حالات بھی اس کی اجازت نہ دیتے تھے کہ اس کو خلیفہ مان لیا جائے- اس لئے “ان حضرات” نے تو آخر دم تک اس تجویز کی مخالفت کی جس کے نتیجے میں”مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ” میں اور “کوفہ و کربلا” میں “انتشار اور قتل عام” کے “خونی اور دلدوز”واقعات پیش آئے-

حوالہ: شہید کربلا”از٫ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ”-

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف”-

اپنا تبصرہ بھیجیں