سلام کن موقعوں پرنہیں کرنا چاہیےہے

سوال:سلام کن مواقع پر نہیں کرنا چاہیے؟ بسا اوقات میں مصروف  ہوتا ہوں لوگ آواز سے سلا م کردیتے ہیں جس سے کام میں خلل واقع ہوتا ہے،تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں؟

۲۔۔۔ایک مولوی صاحب سے سنا ہے کہ جو لوگ کسی گناہ  کے کام میں مشغول ہوں  مثلا کوئی فلم یا ڈرامہ یا جوا کھیل رہے ہوں تو ان کو سلام کرنا ناجائز ہے؟

سائل: محمد عزیر

الجواب حامداومصلیا

سلام ایک  اہم  معاشرتی ادب اور جامع دعا ہے۔دعا کو احادیث میں عبادت کہا گیا ہے،چناچہ کسی بھی ادب یا عبادت کی انجام دہی  کے وقت انسان ہر اس عمل سے اجتناب کرے  جو کسی شخص کو تکلیف دینے یا کسی کے کام میں خلل اندازی کا باعث بنے۔سلام دین اسلام کا شعار ہے ۔ سلام میں سبقت کرنا  بہترین عمل ہے اس لیے سلام  میں پہل کرتے وقت اس کے آداب کا خیال رکھا جائے ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے کتب فقہ میں پھیلے ہوئے ایسےبہت سے مواقع کو اصولوں کے ذریعے ضبط فرمایا ہے جن میں سلام کرنا  ممنوع ہے۔ان  کی صورتیں فقہائے کرام کی ذکر کردہ مثالوں کے ساتھ  درج ذیل ہیں:

جو لوگ کسی اہم کام میں مشغول ہوں : جیسےنماز پڑھنے والے  کو ۔قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو۔ذکر میں مصروف شخص کو ۔اسی طرح جو کسی بھی خطبہ میں مشغول ہو۔جو مقدمہ کے فیصلہ کے لیے بیٹھا ہو۔جو اذان دے رہا ہو ۔ اقامت کہہ رہا ہو ۔ جو درس وتدریس میں مشغول ہو۔ کام کاج ،معاملات وغیرہ یا کوئی ذاتی حاجت ہو جیسے کھانے،پینےمیں مشغول ہو اور اس کے منہ میں لقمہ ہو۔ (اگر لقمہ نہ چبارہا ہو تو سلام کیا جاسکتا ہے ) البتہ اگر کوئی شخص حالت بھوک میں اس نیت سے سلام کرے کہ مجھے شریک دسترخوان کرلے گا  تو اس کو سلام کرسکتا ہے ۔ ان  مواقع پر سلام کے ممنوع ہونے کی وجہ  مشغولیت ہے ۔سلام کرنے سے توجہ منتشر ہوگی اور اس سے حرج لازم آئے گا۔ اور حرج کو اسلام میں روکا گیا ہے۔  پھر سلام کا جواب دینا واجب ہے  اور مشغول شخص کو سلام کے جواب کا پابند کرنا  اس کو تکلیف میں ڈالنا ہے جو جائز نہیں۔

جو لوگ فسق وفجور میں مشغول  ہوں: جیسےشطرنج  کھیلنے والے اور اس مزاج واخلاق کے لوگ( جیسےجوا کھیلنے میں مشغول لوگ) بکثرت جھوٹ بولنے والے کو ،گالم گلوچ کرنے والے کو،علانیہ فسق میں مبتلا شخص کو  جس نے توبہ نہ کی ہو۔ گانےبجانے اور کبوتر بازی وغیرہ  میں مشغول شخص کوسلام نہیں کرنا چاہیے۔تاکہ لوگوں کے سلام نہ کرنے کے احساس سے ان کو اپنے گناہ سے کراہیت پیدا ہو اور دوسرے لوگ بھی ان کی اس اہانت سے عبرت حاصل کرکے گناہوں سے باز رہیں۔

جن کو سلام کرنا تقاضہ حیا کے خلاف ہو: جیسےجس شخص کا ستر کھلا ہوا ہو۔جوبیت الخلاء یاغسل خانہ میں ہو۔جو پیشاب، پاخانہ کی حالت میں ہو۔

جن کو سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو: غیر محرم جوان عورت کو۔

ایسے لوگوں کو اور غیر مسلموں کو سلام میں پہل نہیں کرنا چاہیے(کتاب الفتاوی ۶/۱۲۳)

2۔۔۔گناہ کے کام میں منہمک شخص  سلام کی طرف التفات نہیں کرے گا  ۔جس سے سلام کی اہمیت مجروح ہوگی  اس لیے ایسے لوگوں کو سلام میں پہل نہیں کرنا چاہیے،اگر یہ امید ہو کہ سلام نہ کرنے سے یہ اپنے گناہ پر شرمسار ہوں گے تو سلام نہ کرکے تنبیہ کرنا افضل ہے۔اور اگر گناہ کے کام میں مشغول لوگوں  کو سلام کرنے سے امید ہو کہ گناہ کے کام سے باز آجائیں گے یا سلام نہ کرنے میں تہمتِ کبر ، اوران کے لئے دینداروں سے مزید تنفر کا باعث ہو تو ایسی صورت میں سلام کیا جاسکتا ہے ۔

الحجة علی ما قلنا:

ما فی الدر المختار مع الرد : کتاب الصلاة،باب مایفسد الصلاة وما یکره فیها ۱/۶۱۶ ایچ ایم سعید

وفي النهر عن صدر الدين الغزي:

سلامك مكروه على من ستسمع                            ومن بعد ما أبدي يسن ويشرع

مصل وتال ذاكر ومحدث                                  خطيب ومن يصغي إليهم ويسمع

مكرر فقه جالس لقضائه                                    ومن بحثوا في الفقه دعهم لينفعوا

مؤذن أيضا أو مقيم مدرس                                      كذا الأجنبيات الفتيات امنع

ولعاب شطرنج وشبه بخلقهم                                      ومن هو مع أهل له يتمتع

ودع كافرا أيضا ومكشوف عورة                               ومن هو في حال التغوط أشنع

ودع آكلا إلا إذا كنت جائعا                                         وتعلم منه أنه ليس يمنع

وقد زدت عليه: المتفقه على أستاذه كما في القنية، والمغني، ومطير الحمام، وألحقته فقلت:

كذلك أستاذ مغن مطير                                             فهذا ختام والزيادة تنفع۔

وفی الشامیة:(قوله حال التغوط) مراده ما يعم البول(قوله إلا إذا كنت إلخ) انظر ما وجه ذلك؟ مع أن الكراهة إنما هي في حالة وضع اللقمة في الفم، كمافي حظر المجتبى: يكره السلام على العاجز عن الجواب حقيقة كالمشغول بالأكل أو الاستفراغ، أو شرعا كالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن،

وایضا فی الشامیة:۶/۴۱۵۔أن ذلك مخصوص بحال وضع اللقمة في الفم والمضغ وأما قبل وبعد فلا يكره لعدم العجز وبه صرح الشافعي، وفي وجيز الكردري مر على قوم يأكلون إن كان محتاجا وعرف أنهم يدعونه سلم وإلا فلا

وایضا ما فی الدر المختار مع الرد : کتاب الصلاة،باب مایفسد الصلاة وما یکره فیها ۱/۶۱۶ (سعید)

ولعاب شطرنج وشبه بخلقهم ۔ وتحته فی الشامیة : (قوله وشبه) بكسر الشين: أي مشابه لخلقهم بالضم، والمراد من يشابههم في فسقهم من سائر أرباب المعاصي؛ كمن يلعب بالقمار، أو يشرب الخمر، أو يغتاب الناس، أو يطير الحمام أو يغني فقد نبه بلعب الشطرنج المختلف فيه على أن ما فوقه مثله بالأولى

ما فی الفتاوى الهندية،كتاب الكرا‫‫هیة، الباب السابع في السلام وتشميت العاطس ۵/۳۲۵

يكره السلام عند قراءة القرآن جهرا، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضا، كذا في الغياثية.۔۔۔۔۔ولا يسلم عند الخطبة يوم الجمعة والعيدين واشتغالهم بالصلاة ليس فيهم أحد إلا يصلي كذا في الخلاصة.۔۔۔۔۔ولا يسلم على قوم هم في مذاكرة العلم أو أحدهم وهم يستمعون، وإن سلم فهو آثم،.۔۔۔۔۔۔ولا يسلم المتفقه على أستاذه، ولو فعل لا يجب رد سلامه،ولا يسلم على الشيخ الممازح أو الرند أو الكذاب أو اللاغي، ومن يسب الناس وينظر إلى وجوه النسوان في الأسواق، ولا يعرف توبتهم، كذا في القنية.

ولا يسلم على الذي يتغنى والذي يبول والذي يطير الحمام، ولا يسلم في الحمام، ولا على العاري إذا كان متزرا، ولا يجب عليهم الرد،۔۔۔۔۔واختلف في السلام على الفساق في الأصح أنه لا يبدأ بالسلام،.۔۔۔۔۔۔رجل سلم على من كان في الخلاء يتغوط ويبول لا ينبغي له أن يسلم عليه في هذه الحالة، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، والرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس كذا في فتاوى قاضي خان.

ما فی الفتاوى الهندية،كتاب الكرا‫‫هیة، الباب السابع في السلام وتشميت العاطس ۵/۳۲۶

 ولا يسلم على الذي يتغنى۔۔۔۔ ولا بأس بالسلام على الذين يلعبون الشطرنج للتلهي، وإن ترك ذلك بطريق التأديب والزجر لهم حتى لا يفعلوا مثل ذلك فلا بأس به، وإن كان لتشحيذ الخاطر لا بأس بالتسليم عليهم، وكتب في المستزاد لم ير أبو حنيفة – رحمه الله تعالى – بالتسليم على من يلعب بالشطرنج بأسا ليشغله ذلك عما هو فيه، وكره أبو يوسف – رحمه الله تعالى – ذلك تحقيرا لهم، كذا في الذخيرة.

درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 321)

(قوله وكره اللعب بالشطرنج) كذا يكره السلام على لاعبيه استحقارا بهم وإهانة لهم عند أبي يوسف ومحمد ولم ير أبو حنيفة به بأسا لشغلهم عن اللعب.

کتاب الفتاوی میں ہے: ۶/۱۲۳

جو لوگ کسی اہم کام میں مشغول ہوں جو لوگ فسق وفجور میں مشغول  ہوں جن کو سلام کرنا تقاضہ حیا کے خلاف ہوجن کو سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہوایسے لوگوں کو اور غیر مسلموں کو سلام میں پہل نہیں کرنا چاہیے

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۲۳/۵/۱۴۴۱ھ

2020/01/19

اپنا تبصرہ بھیجیں