سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک تنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔
تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور نئی دنیا کا ایک مفصل نقشہ بناتی اور بتاتی رہی ہےاس میں جب وہ یہ بتائے کہ ”کیا نہیں ہونا چاہیے“ تو یہ سیکولرزم ہے اور جب یہ بتائے کہ ”کیا ہونا چاہیے“ تو یہ لبرلزم ہے۔ جب جدید عقل یہ بتا رہی ہو کہ ”کیا نہیں ہونا چاہیے“ تو اس وقت اس کی نظر مذہب پر گَڑی ہوتی ہے اور یہ سیکولرزم کی فکری تشکیلات کر رہی ہوتی ہے جن کا تعلق زیادہ تر سیاسی اور اجتماعی دائرے سے ہے۔ یہ ایک سیاسی آئیڈیالوجی ہے۔ جدید عقل کے پیدا کردہ سیاسی اور معاشی دعووں کو براہ راست چیلنج مذہب سے آتا ہے اس لیے اس کا ”بندوبست“ اول اول ضروری ہے۔ توہم پرستی کیونکہ سیاسی دعوے نہیں رکھتی اس لیے سیکولرزم اسے قبول کر لیتا ہے اگرچہ وہ عقل کے اپنے قائم کردہ ٹھیٹھ معیارات کے برخلاف ہوتی ہے، جیسے اس نے آج کل سائنٹالوجی کو گود لیا ہوا ہے۔
اور جب جدید عقل یہ بتانا چاہے کہ ”کیا ہونا چاہیے“ تو نگاہ میں مراداتِ نفس انسانی اور دنیاوی آرزؤں کی قوس قزح ہوتی ہے۔ یہ قوس قزح امید کی اس واحد کرن سے پیدا ہوتی ہے جسے عقل یرغمال بنانے اور سفاک تاریخ کے نیم تاریک افق پر گھڑی بھر کو رنگ برنگ دکھانے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن افسوس کہ امید عقل کی یرغمال بنتے ہی مر جاتی ہے۔
سیکولرزم میں دیگریت کا پہلو نمایاں ہے اور دیگر کے بغیر سیکولرزم اپنی تشکیل نہیں کر پاتا، کیونکہ reflexive reason اس کے عین مرکز میں متحرک رہتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر سلبی ہے اور جدید انسان کے ”لا“ کا کل حاصل ہے۔ لبرلزم میں دیگریت کا عنصر نہیں ہے اور یہ اغلباً ایجابی ہے۔ لیکن چونکہ عقل کے بنائے ہوئے سارے نظریات عدم استحکام کا شکار ہو جاتے ہیں، لٰہذا تاریخی دباؤ میں لبرلزم بھی دیگریت سے بچ نہیں سکتا۔ اگر لبرلزم میں دیگریت داخل ہو جائے تو یہ فسطائیت ہے۔ یعنی تاریخ اور فطرت سے خوشحالی اور خوشیاں کشید کرتے ہوئے جدید اور غلبہ جُو انسان ”دوسرے“ کو پسند نہیں کرتا جو کباب میں ہڈی کی طرح ہوتا ہے۔ لبرلزم اپنے جوشِ کسب و حصول میں اس ”دوسرے“ کا وجود اپنی خوشیوں اور خوشحالی میں رکاوٹ قرار دیتے ہی فسطائیت بن جاتا ہے، کیونکہ حصول کی مکمل کامیابی کے لیے دوسرے کا خاتمہ ضروری ہے۔ لبرلزم جدید انسان کا ”لا“ کے بعد کا سفر ہے۔ فسطائیت لبرلزم اور رومانویت کا مجموعہ ہے، یعنی لبرلزم میں نفسی داعیات کی شدت کی وجہ سے reflexive reason دب جاتی ہے، اور نسل اساس رومانوی کبر و ادعا غالب آ جاتے ہیں۔
سیکولرزم میں عقلی داعیات غالب ہوتے ہیں اور مقتدائے عقل ماسوا کو قبول نہیں کرتا۔ لبرلزم میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی نفسی داعیات غالب ہوتے ہیں، جن میں شناخت کا رول مرکزی ہوتا ہے اور جو اصلاً نسلی ہے۔ اگر لبرلزم کے جذبۂ حصول پر شناخت، یعنی نسلی شناخت، غالب آ جائے تو فسطائیت نمودار ہو جاتی ہے۔
لبرلزم بنیادی طور پر نفس کی آٹونومی اور ارادے کی حریت کا علمبردار ہے، اور سیکولرزم ان کا مذہب سے محافظ۔ نفس کی آٹونومی کا مقصود لذت ہے، اور حسن و قبح اہوائی ہے، اس لیے اخلاقی اور جمالیاتی اقدار کا یہاں کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، اور ذوی الارحام سے جنسی تعلق اور کتے، گھوڑے وغیرہ جانوروں سے جنسی تعلق میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ سماجی اور معاشی دائرے میں ارادے کی حریت کی توسیط قانون سے ہوتی ہے اور اجتماعی سیاسی دائرے میں صرف سیاسی طاقت سے۔ آئیڈیا اور قدر یہاں بھی غیر حاضر ہیں۔ سیکولزم اور لبرلزم سے بننے والے سیاسی، معاشی اور فوجی نظام میں سائنس معمار اور مزدور ہے اور فکری علوم اس کا سیوریج سسٹم ہیں، جو اس پورے سسٹم کے وجودی تعفن کو دور رکھنے اور اسے مسلسل پوچی لگا کے چمکانے کا کام کرتے ہیں۔
سیکولرزم کا روئے سخن خدا کی طرف ہے کہ تو نہیں ہے، بالکل بھی نہیں ہے، اور لبرلزم انسان سے مخاطب ہے کہ صرف تو ہی تو ہے، اور کوئی نہیں ہے۔ جب ”اور کوئی“ آ دھمکے تو دیکھتے ہی دیکھتے لبرل دنیا کسی ہٹلر، مسولینی، ہنری کسنجر، ریگن، تھیچر، ٹونی بلیئر، اور بش کو آواز دیتی ہے۔ ہم عصر دنیا میں یہ آوازیں لبرلوں کی چنگھاڑ اور کمزوروں کی آہ و بکا بن گئی ہیں، اور کسی بڑی جنگ کے کابوس پرے کے پرے بن کے اترنے والے ہیں۔
و اللہ اعلم
محمد دین جوہر عفی عنہ

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں