شبینہ کا کیا حکم ہے

سوال :شبینہ کا کیا حکم ہے؟
فتویٰ نمبر:243
الجواب حامدًا ومصلّياً
قرآن پاک کا سننا اور سنانا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا اوربھی زیادہ ثواب کی بات ہے کیونکہ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے اور قرآن کریم کا اس کے ساتھ ایک خاص ربط بھی ہے،لیکن اصولی طور پر ہر نیک کام کے کچھ آداب اور حدود و شرائط ہوتي ہیں ،جب تک وہ نیک کام اپنی تمام شرائط اور حدود کے اندر اندر ہو تو باعث ِ اجر و ثواب ہے ورنہ باعث ِ گناہ ہے،چنانچہ رمضان المبارک میں جو شبینہ ہوتاہے اس کے جائز ہونے کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نوافل کے بجائے تراویح میں پڑھیں،اوراگر نوافل میں پڑھیں توباقاعدہ جماعت نہ ہو یعنی دو یا تین سے زائد مقتدی نہ ہوں کیونکہ اگر مقتدی تین سے زائد ہوئے تو یہ تداعی کے ساتھ نوافل کی جماعت ہوگی جو کہ مکروہ ِ تحریمی ہے،نیزاگرنمازِ تراویح میں شبینہ پڑھا جائے تو اس میں بھی مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھنا لازم اور ضروری ہے : (۱)قرآن پاک کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے (۲) نام و نمود اور ریاء کاری مقصود نہ ہو (۳) اس کیلئے فضول خرچی نہ کرنی پڑتی ہو(۴)اس میں لاؤڈ اسپیکر کا بلا ضرورت استعمال نہ ہو بلکہ صرف بقدر ِ ضرورت استعمال کیا جائے(۵)اس کی وجہ سے معتکف اور ذکر،تلاوت اورنماز میں مشغول شخص کو تکلیف نہ ہو،نیز سونے والے کے آرام میں خلل واقع نہ ہو اور نہ ہی کسی بیمار کو تکلیف ہو (۶)فرائض و واجبات کی طرح اس کی پابندی نہ ہو(۷)اس میں شرکت نہ کرنے والے پر کم ہمت ہونےکا طعن و تشنیع نہ کیا جائے(۸)جلدی کی وجہ سے نماز کے ارکان و شرائط کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جاتی ہو(۹)شبینہ پڑھانے والے حضرات مشروط یا معروف طور پر اجرت نہ لیں(۱۰) سننے والے کلامِ پاک پورے ادب و احترام کے ساتھ سنیں ۔
لہٰذا اگر مذکورہ بالا تمام شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے تراویح میں شبینہ پڑھاجائے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ،نیز اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ ایک رات میں قرآن مجیدختم کرنے کے بجائے کم سے کم تین راتوں میں ختم کیا جائے۔(مأخذہ ، رجسٹر فتاوی دارالعلوم کراچی :۴/۱۳۳۳۔۱۰/۱۳۰۶ بتصرف )
==============
الفتاوى الهندية (1/ 83):
التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره وفي الأصل للصدر الشهيدا
أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية المسجد لا يكره وقال شمس
الأئمة الحلواني إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالاتفاق وفي الأربع اختلف
المشايخ والأصح أنه يكره هكذا في الخلاصة
==============
الدر المختار (2/ 48):
(ولا يصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي، بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر، ولا خلاف في صحة الاقتداء إذ لا مانع نهر.
==============
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 65):
قال الطيبي جاء آثار بفضيلة الجهر بالقرآن وآثار بفضيلة الأسرار به والجمع بأن يقال الإسرار أفضل لمن يخاف الرياء والجهر أفضل لمن لا يخافه بشرط أن لا يؤذي غيره من مصل أو نائم أو غيرهما
==============
حاشية ابن عابدين (1/ 660):
وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ……. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارىء الخ.
==============
واللہ اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی
 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں