شادی پہ بیٹی کو دیے گئے زیور کاحکم ؟

سوال: فاطمہ کی شادی پہ اس کے والدین نے سونے کی بالیاں دیں، چند ماہ بعد فاطمہ کو طلاق ہوگئی اور وہ والدین کے گھر آگئی۔اب فاطمہ کی دوبارہ شادی ہوئی تو والدین نے وہ بالیاں اسے نہیں دیں، سوال یہ ہے کہ وہ بالیاں فاطمہ کی ہیں یا اس کے والدین کی ملکیت ہیں؟؟

الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ ہر وہ چیز جو شادی کے موقع پر لڑکی کو مالک بناکر دی گئی ہے خواہ سسرال کی طرف سے ہو یا میکے کی طرف سے ، ان چیزوں کی مالک لڑکی ہے اس کو لڑکی سے واپس لینا جائز نہیں ۔
صورت مسئلہ میں اگر فاطمہ کے والدین نے بیٹی کو زیور مالک بنا کر دیا تھا تو اب وہ فاطمہ کی ہیں،البتہ اگر فاطمہ کے خاندان میں یہ رواج ہوکہ بیٹی کو صرف استعمال کے لیے زیور دیا جاتا ہے تو پھر اس زیورات کے مالک فاطمہ کے والدین ہی ہوں گے۔

=================
حوالہ جات :
1 ۔ ” عن  ابن عباس  عن رسول اللہ ﷺ  قال: “العائد في هِبَتِهِ، كالعائد في قَيْئِهِ“۔وفي لفظ: “فإن الذى يعود في صدقته: كالكلب يَقِئ ُثم يعود في قيئه“۔
(صحیح مسلم : 2/36 کتاب  الھبات ، قدیمی)
ترجمہ :
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ: اپنا دیا ہوا ہدیہ واپس لینے والا ایسا ہے جیسے اپنی کی ہوئی قے کو چاٹنے والا(کُتّا) ہو۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ جو شخص صدقہ کرکے واپس لیتا ہے وہ اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر چاٹ جاتا ہے۔

2 ۔ كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها”. (3/158، باب المہر، ط سعید)       

3 ۔”قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً”.
(ردالمحتار علی الدرالمختار : 3/ 153،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)۔
وفیہ ایضا :”والمعتمد البناء على العرف كما علمت“۔
(3/157، باب المہر، ط؛ سعید)۔

4 ۔ ” سوال : زیور اور کپڑا جو لڑکی کو دیتے ہیں وہ کس کی ملک ہے؟
جواب: جو اشیاء ماں باپ کی طرف سے دی جائیں وہ لڑکی کی ملک ہے،اور جو شوہر یا سسرال کی طرف سے دی جائیں اس میں نیت کا اعتبار ہے، جیسی نیت ہو اور جس کے لیے نیت ہو اسی کی ملک ہے“۔
(فتاوی دارالعلوم دیوبند: کتاب النکاح، 262/8)

واللہ اعلم بالصواب۔
10 جمادی الثانی 1444
3 جنوری 2023۔

اپنا تبصرہ بھیجیں