شادیوں میں شرکت

سوال:ہمارے خاندان کی پردہ دار خواتین شادیوں میں شرکت نہیں کرتیں۔ کچھ خواتین یہ اعتراض کرتی ہیں کہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والی خواتین شادیوں میں شرکت کرتی ہیں اور ایک کونے میں بیٹھی رہتی ہیں تو آپ کون سا نیا دین نکال رہی ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

بلاشبہ شریعت دعوت قبول کرنے کی نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ یہ مسلمان کا مسلمان پر حق ہے.

آج کل خواتین کا ان دعوتوں میں عدم شرکت کی وجہ نیا دین بنانا نہیں، بلکہ ان تقاریب میں موجود عریانی، فحاشی اور خرافات ہیں. ایسی تقاریب میں شرکت نہ کرنا ہی عین شریعت ہے۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم منکرات سے دور رہتے تھے۔ ہمیں انہی کے طریقوں کو اختیار کرنا چاہیے.

رہی بات تبلیغی خواتین کا ایسی تقاریب میں شرکت کرنا تو یہ ان کا ذاتی فعل ہے، ان کے ایسا کرنا سے ایسی تقاریب میں شرکت جائز نہیں ہو جاتی۔

____________

حوالہ جات:

1: بخاری کتاب الجنائز (1/680):

عن أبي هريرة -رضي الله عنه-: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:«حقُّ المُسلمِ على المُسلمِ خمسٌّ: ردُّ السلام، وعِيَادَةُ المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدَّعوة، وتَشميتُ العاطِس».

ترجمہ:

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا ، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘‘۔

2:وفی صحیح للبخاری:(کتاب النکاح: مکتبۃ البشری 3/ 5-2354):

وراى ابن مسعود صورة في البيت فرجع ودعا ابن عمر ابا ايوب فراى في البيت سترا على الجدار، فقال ابن عمر:” غلبنا عليه النساء، فقال: من كنت اخشى عليه فلم اكن اخشى عليك والله لا اطعم لكم طعاما فرجع”.

‏‏‏‏ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے (ولیمے والے گھر میں) ایک تصویر دیکھی تو وہ واپس آ گئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ ابوایوب رضی اللہ عنہ کی دعوت کی (ابوایوب رضی اللہ عنہ نے) ان کے گھر میں دیوار پر پردہ پڑا ہوا دیکھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے (معذرت کرتے ہوئے) کہا کہ عورتوں نے ہم کو مجبور کر دیا ہے۔ اس پر ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور لوگوں کے متعلق تو مجھے اس کا خطرہ تھا لیکن تمہارے متعلق میرا یہ خیال نہیں تھا (کہ تم بھی ایسا کرو گے) واللہ! میں تمہارے یہاں کھانا نہیں کھاؤں گا چنانچہ وہ واپس آ گئے۔

3:عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم،” انها اخبرته انها اشترت نمرقة فيها تصاوير، فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على الباب فلم يدخل فعرفت في وجهه الكراهية، فقلت: يا رسول الله، اتوب إلى الله وإلى رسوله، ماذا اذنبت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما بال هذه النمرقة؟ قالت: فقلت: اشتريتها لك لتقعد عليها وتوسدها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن اصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة ويقال لهم: احيوا ما خلقتم، وقال: إن البيت الذي فيه الصور لا تدخله الملائكة”.

نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے ایک چھوٹا سا گدا خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہیں آئے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خفگی کے آثار دیکھ لیے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول سے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا غلطی کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ گدا یہاں کیسے آیا؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا میں نے ہی اسے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس پر ٹیک لگائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان تصویروں کے (بنانے والوں کو) قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے تصویر سازی کی ہے اسے زندہ بھی کرو؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن گھروں میں تصویریں ہوتی ہیں ان میں (رحمت کے) فرشتے نہیں آتے۔

4:الدر المختار وحاشية ابن عابدين (کتاب الحظر والاباحۃ:9/ 7-574):

“(دعي إلى وليمة وثمة لعب أو غناء قعد وأكل) لو المنكر في المنزل، فلو على المائدة لاينبغي أن يقعد بل يخرج معرضا لقوله تعالى: {فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} [الأنعام: 68] فالواجب كل الواجب

وفي التتارخانية عن الينابيع: لو دعي إلى دعوة فالواجب الإجابة إن لم يكن هناك معصية ولا بدعة والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقيناً أن لا بدعة ولا معصية اهـ والظاهر حمله على غير الوليمة لما مر ويأتي.. والإجابة سنة والامتناع عن الحرام أولى اهـ…..

رواه ابن ماجه «أن علياً – رضي الله عنه – قال: صنعت طعاماً فدعوت رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء فرأى في البيت تصاوير فرجع» اهـ. قلت: مفاد الحديث أنه يرجع ولو بعد الحضور وأنه لاتلزم الإجابة مع المنكر أصلاً، تأمل”.

واللہ تعالیٰ اعلم

4 دسمبر 2021

26 ربیع الثانی 1443

اپنا تبصرہ بھیجیں