شیعہ اور قادیانی کو زکوۃ دینے کا حکم

سوال:کیا شیعہ اور قادیانی کو زکوۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ سوال میں دو قسم کے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا،چنانچہ بالترتیب جواب ملاحظہ ہو:

1:اگر شیعہ کے عقائد کفر کی حد تک پہنچ جائیں ( مثلاً قرآن کریم میں تحریف ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت ،حضرات شیخین رضی اللہ عنھما پر لعن طعن کرتا ہو یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان باندھتا ہو) تو اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے سنی مسلمان کا ایسے اہل تشیع کو زکوۃ دینا جائز نہیں،اگر زکوٰۃ دے دی تو ادا نہیں ہوگی۔

2: قادیانی نبی آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت کے منکر ہونے کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد و زندیق ہیں؛لہذا ان کو زکوۃ دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔

————————————————————-

حوالہ جات:

1۔قال الإمام الحصكفي رحمه اللّٰه تعالى:وسكت عن المؤلفة قلوبهم لسقوطهم: إما بزوال العلة،أو نسخ بقوله صلى اللّٰه عليه وسلم لمعاذ رضي الله عنه في آخر الأمر:”خذها من أغنياىٔهم وردها في فقراىٔهم”.

وقال الإمام ابن عابدين:قوله(لسقوطهم) أي:في خلافة الصديق لما منعهم عمر رضي الله عنهما وانعقد عليه إجماع الصحابة،نعم علي القول بأنه لا اجماع إلا عن مستند يجب علمهم بدليل افاد نسخ ذالك قبل وفاته صلى اللّٰه عليه وسلم أو تقييد الحكم بحياته أو كونه حكما مغياً بانتهاء علته وقد اتفق انتهاؤها بعد وفاته .وضمير فقراىٔهم للمسلمين ،فلا تدفع الى من كان من المؤلفة كافراً أو غنياً،وتدفع الى من كان منهم مسلماً فقيراً بوصف الفقر لا لكونه من المؤلفة.

(الدرالمختار مع رد المحتار:338/3)

2۔الرافضي إذا كان يسبّ الشيخين ويلعنهما والعياذ باللّٰه فهو كافر وإن كان يفضل علياً كرم الله وجهه علي أبي بكر رضي الله عنه لا يكون كافراً إلا أنه مبتدع …..وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الاسلام واحكامهم احكام المرتدين كذا في الظهيرية.

(الفتاوي الهندية:286/2)

3۔ولا تدفع إلي ذمي لحديث معاذ رضي الله عنه وجاز دفع غيرها وغير العشر والخراج إليه.

(الدرالمختار:353/3)

4۔قال الكاساني:لا يجوز صرف الزكاة إلي الكافر بلا خلاف لحديث معاذ رضي الله عنه:”خذ من أغنياىٔهم وردها إلى فقراىٔهم”.

(بداىٔع الصناىٔع:49/2)

5۔زکوٰۃ شریعت میں اس کو کہتے ہیں کہ اپنے مال کا ایک حصہ معینہ جو کہ شارع علیہ السلام نے معین فرمایا ہے مثلاً چالیسواں حصہ،مسلمان محتاج کو دیا جاوے اور اس کو مالک بنا دیا جاوے،پس معلوم ہوا کہ زکوۃ کے ادا کے لیے یہ شرط لازمی ہے کہ مسلمانوں کو دی جاوے جو کہ مصرف زکوۃ ہوں اور آیت کریمہ”اِنمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنِ “الایة.میں فقراء مساکین سے مراد مسلمان فقراء مساکین ہیں باجماع امت،البتہ نفلی صدقہ ذمیوں ،یعنی کافروں کو دیا جاسکتا ہے۔

(فتاوی دارالعلوم دیوبند:183/6)

واللہ اعلم بالصواب

23رجب 1443ھ

25فروری2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں