شرک کی تعریف،اقسام اور حقیقت: دوسری قسط

شرک کی تعریف،اقسام اور حقیقت: دوسری قسط

شرک کی دوسری قسم:شرک عملی

شرک عملی کا دوسرا نام شرک مجازی ہے۔یعنی اسے مجازاً شرک کہاجاتا ہے،ورنہ حقیقت میں یہ وہ شرک نہیں جس کی بنا پر انسان دائرہ ٔ اسلام سے نکل جائے اور مشرکین مکہ اور ہنود ومجوس کی طرح پکا مشرک ٹھہرے۔اس کی صورتیں یہ ہیں:

۱۔ تمام عقائدمسلمانوں والے ہوں،یعنی زبان سےاللہ کو ایک جاننا ایک ماننا، رسولوں کو ماننا، کلمہ توحید کا اقرار کرنا وغیرہ،لیکن ساتھ ساتھ دل یازبان سے یااپنے عمل سےیہ عقیدہ ظاہر کرنا کہ چونکہ فلاں فلاں اللہ تعالی کے مقرب اور بندگان خدا میں سے ہیں ،اس وجہ سے اللہ تعالی ان کی سفارش رد نہیں کرتے۔ان کے در پر جو فریاد کی جاتی ہے یہ اسے اللہ کے دربار میں پیش کرتے ہیں اور کیونکہ یہ اللہ تعالی کے محبوب اور مقرب ہیں اس لیے اللہ تعالی ان کی لاج رکھ کر بندوں کا وہ کام خودکردیتے ہیں۔یہ نہیں کہ ان پر اللہ کی زبردستی ہے کہ اللہ تعالی ان سے خائف ہوکر وہ کام کرتے ہیں بلکہ ان سے محبت کی وجہ سے وہ کام کردیتے ہیں۔

انبیا واولیاکے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنانصوص کے خلاف ہےاور شرک عملی ہے یعنی سخت گناہ اور حرام ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ مشرک حقیقی نہیں کہلائے گا، بے نمازی کی طرح فاسق کہلائے گا، لیکن ہندو اور مجوسی کی طرح کافر نہیں کہلائے گا۔

۲۔ نیک اور بزرگ ہستیوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی عطا سے اختیارات دیے ہیں لیکن یہ اختیار مستقل نہیں بلکہ ہر بار انہیں اس کی اجازت لینا پڑتی ہے۔اجازت ملتی ہے تو کرتے ہیں ورنہ نہیں۔جیسے:ایک غلام اور نوکر ہوتا ہے وہ مالک سے پوچھ پوچھ کر ہر کام کرتا ہے اور ڈرتا بھی رہتا ہے کہ کچھ غلط نہ ہوجائے۔اگر چہ فرشتوں کے بارے میں یہی عقیدہ ہونا چاہیے،کیونکہ روح قبض کرنا، بارش برسانا،عذاب مسلط کرنا،جہاد میں شریک ہونا،درود پہنچانا، حفاظت کرنااور دیگر متعدداموراللہ تعالی نے فرشتوں کے حوالے کررکھے ہیں۔جس کی یہی صورت ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی سے پوچھ پوچھ کر اور اللہ ہی کے حکم و ارادے سے یہ امور انجام دیتے ہیں۔ {وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا (1) وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا (2) وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا (3) فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا (4) فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا} [النازعات: 1 – 5]

قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (کافروں کی روح) سختی سے کھینچتے ہیں۔ اور جو (مومنوں کی روح کی) گرہ نرمی سے کھول دیتے ہیں۔ پھر (فضا میں) تیرے ہوئے جاتے ہیں۔ پھر تیزی سے لپکتے ہیں۔ پھر جو حکم ملتا ہے اس (کو پورا کرنے) کا انتظام کرتے ہیں۔

لیکن دنیا سے کوچ کرجانے والے بندگان خداکے بارے میں ایسا عقیدہ نصوص سے ثابت نہیں اس لیے ان کے حوالے سےایسا عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے، کسی نے ایسا عقیدہ ظاہر کیا تو اسے شرک اکبر نہیں کہا جائے گا۔قرآن کہتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنے امتیوں کے شرک کے بارے میں کچھ علم نہ ہوگا۔وہ فرمائیں گے: {مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ } [المائدة: 117] میں نے ان لوگوں سے اس کے سوا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، اور وہ یہ کہ : اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ اور جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، میں ان کے حالات سے واقف رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگراں تھے، اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں۔

لیکن یہاں یہ بات یاد رکھی جائے کہ جس چیزوں کی نفی قرآن وسنت میں آگئی ہے کہ وہ محض اللہ کا فعل ہے یا یہ آیا ہے کہ اسےغیراللہ نہیں کرسکتے یا جس چیز کے بارے میں نصوص میں صراحت ہے کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں توان کے بارے میں نصوص کے ظاہر کے مطابق ہی عقیدہ رکھنا لازم ہے۔جیسے : حدیث میں آتا ہے کہ پیر اور جمعرات کو نبی کریم ﷺکے سامنے امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں یا آپ ﷺ کے سامنے امتیوں کا درودوسلام پیش کیا جاتا ہے تو اس کو ماننا لازم ہوگالیکن یہ بات کہ انبیائے کرام یا اولیائے کرام کی ارواح مدد کرنے آتی ہیں ، مشکل کشائی کرتی ہیں اس کی صراحتاً نفی آئی ہے اس لیے ایسا عقیدہ رکھنابالکل حرام ہے۔

{قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا (56) أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا } [الإسراء: 56، 57]

ترجمہ:جو لوگ اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو مانتے ہیں، ان سے) کہہ دو کہ : جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود سمجھ رکھا ہے، انہیں پکار کر دیکھو۔ ہوگا یہ کہ نہ وہ تم سے کوئی تکلیف دور کرسکیں گے، اور نہ اسے تبدیل کرسکیں گے۔ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ تو خود اپنے پروردگار تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے کون اللہ کے زیادہ قریب ہوجائے، اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں، اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یقینا تمہارے رب کا عذاب ہے ہی ایسی چیز جس سے ڈرا جائے۔

{وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَوْبِقًا } [الكهف: 52]

ترجمہ:اور اس دن کا دھیان کرو جب اللہ ( ان مشرکوں سے) کہے گا کہ : ذرا پکارو ان کو جنہیں تم نے میری خدائی میں شریک سمجھ رکھا تھا۔ چناچہ وہ پکاریں گے، لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے، اور ہم ان کے درمیان ایک مہلک آڑ حائل کردیں گے۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ} [سبأ: 22]

ترجمہ:اے پیغمبر ! ان کافروں سے) کہو کہ پکارو ان کو جنہیں تم نے اللہ کے سوا خدا سمجھا ہوا ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر کسی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ ان کو آسمان و زمین کے معاملات میں (اللہ کے ساتھ) کوئی شرکت حاصل ہے، اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔

دورحاضر کے تعزیہ پرست اور قبرپرست مسلمانوں کے بارے میں ہمیں حسن ظن رکھنا چاہیے اور یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ شرک عملی کرتے ہیں۔شرک حقیقی نہیں۔مزارات پر ان کاسجدہ تعظیمی ہوتا ہےنہ کہ سجدہ ٔ عبادت۔گوکہ سجدہ ٔ تعظیمی حرام ہے لیکن شرک اکبر نہیں۔(دیکھیےامدادالاحکام:ج۱ص۱۱۸۔۱۳۲طبع مکتبہ دارالعلوم کراچی)

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں