شرک کی تعریف ،اقسام اور حقیقت:تیسری قسط

شرک کی تعریف ،اقسام اور حقیقت:تیسری قسط

شرک کی حقیقت

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں :

عوام کے ایک بڑے طبقہ نے شرک کی حقیقت یہ سمجھی کہ کسی ہستی کو ( خواہ وہ زندہ ہو یا فوت شدہ ) خدا کا بالکل ہمسر اور ہم پایہ بنا لیا جائے، خدا کی تمام صفات اور افعال اس کی طرف منسوب کئے جائیں، اسی کو خالق، رزاق، زندہ کرنے والا اور مارنے والا حقیقتاً و اصالتاً سمجھ لیا جائے۔

لیکن اللہ تعالی کی بعض صفات کا اس کے کسی مقبول بندہ کی طرف منسوب کرنا اور بعض افعال کا ( جو خدا کے ساتھ مخصوص ہیں ) ان سے صدور ماننا، قدرت کے بعض کارخانوں کا ان سے متعلق ہو جانا، اور اللہ کا اپنی مرضی سے اپنے بعض اختیارات ان کے سپرد کر دینا، یہ توحید کے منافی اور شرک کے مرادف نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح کسی کی محض تقرب الی اللہ اور شفاعت عنداللہ کےلئے ایسی حد سے بڑھی ہوئی تعظیم کرنا اور ان کے ساتھ ایسے اعمال وحرکات سے پیش آنا جو عبادت کے حدود میں داخل ہیں، داخل شرک نہیں کہ یہ محض رضائے خداوندی کے حصول کا ایک ذریعہ اور اس بارگاہ بے چوں وبے چگوں تک پہنچنے كا (جس كے یہاں معمولی بشر كی رسائی نہیں) ایك مفید اور مؤثر طریقہ ہے، كفار عرب كہتے تھے:مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ ﴿ الزہر ۳﴾( ہم ان كو اس لیے پوجتے ہیں كہ ہم كو خدا كا مقر ب نادیں۔

یہ وہ مغالطہ اور البتاس تھا، جس كی وجہ سے اس امت كے بھی كثیر التعداد افراد شرك كی ارض ممنوعہ میں پڑ جاتے تھے، اور اس سرحدی لكیر كو پار كر گئے تھے، جو توحید و شرك كی حد فاصل (Line of Demarcation) ہے، اس لیے سب سے پہلی اور اہم ضرورت یہ تھی كہ معلو م كیا جائے كہ اہل جاہلیت اور مشركین عرب كا عقیدہ اللہ تعالی كے بارے میں كیا تھا؟ وہ اس كی ذات و صفات كے بارے میں كن كن چیزوں كے قائل تھے؟ اللہ تعالی كو فاطر كائنات، خالقِ ارض و سماوات، اور قادرِ مطلق سمجھنے كے باوجود اللہ كے رسول نے ان كو كیوں مشرك گردانا، اور قرآن نے ان كے مشرك ہونے كا كیوں اعلان كیا؟

حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ اپنی بے نظیر كتاب ’’الفوز الكبیر فی اصول التفسیر‘‘ میں لكھتے ہیں :

’’شرك یہ ہےكہ ما سوا اللہ كے لیے ان صفات كو ثابت مانا جائے جو خدا تعالیٰ كے ساتھ مختص ہوں، مثلاً عالم كے اندر تصّرفاتِ ارادی جس كو كُن فیكون سے تعبیر كرتے ہیں،یا علم ذاتی جس كا اكتساب نہ حوان كے ذریعہ سے ہو نہ عقل كی رہنمائی سے اور نہ خواب اور الہام وغیرہ كے واسطہ سے، یا مریضوں كو شفا دینا یا كسی شخص پر لعنت كرنا اور اس سے ناراض ہونا، جس كے باعث اس كو تنگ دستی اور بیماری اور شقاوت گھیر لیں،یا رحمت بھیجنا جس سے اس كو فراخ دستی، تندرستی اور سعادت حاصل ہو۔

مشرکین بھی جواہر ( اجسام ) اور عظیم الشان امور کے پیدا کرنے میں کسی کو خداتعالی کا شریک نہیں جانتے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ جب خدا تعالی کسی کام کے کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو کسی میں اس کے روکنے کی قدرت نہیں ہے، ان کا شرک فقط ایسے امور کی نسبت تھا جو کہ بعض بندوں کے ساتھ مخصوص تھے، ان لوگوں کا گمان تھا کہ جیسے شاہان عظیم القدر اپنے مقربان خاص کو ملک کے مختلف حصوں کا فرماں روا مقرر کرتے ہیں، اور بعض امور خاصہ کے فیصلے کرنے میں ( جب تک کوئی شاہی حکم صریح موجود نہ ہو) ان کو مختار بنا دیتے ہیں، اور اپنی رعایا کی چھوٹی باتوں کا خود انتظام نہیں کرتے، اور اپنی کل رعایا کو حکام کے سپرد کر دیتے ہیں، اور حکام کی سفارش ان کے ماتحت ملازمین اور متوسلین کے حق میں قبول کی جاتی ہے، ایسے ہی بادشاہ علی الاطلاق جل مجدہ نے بھی اپنے خاص بندوں کو رتبہ الوہیت کے خلعت سے سرفراز کیا ہے اور ایسے لوگوں کی رضامندی و ناراضی دوسرے بندوں کے حق میں مؤثر ہے، اس لیئے وہ ان بندگان خاص کے تقرب کو ضروری خیال کرتے تھے تاکہ بادشاہ حقیقی کی درگاہ میں مقبولیت کی صلاحیت پیدا ہو جائے، اور جزائے اعمال کے وقت ان کے حق میں شفاعت درجہ قبولیت حاصل کرے، اور ان خیالی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے وہ لوگ ان کو سجدہ کرنا اور ان کے لیے قربانی کرنا اور ان کے نام کی قسم کھانا، اور ضروری امور میں ان کی قدرت کن فیکون سے مدد لینا جائز سمجھتے تھے، انھوں نے پتھر، پیتل، اور سیسہ وغیرہ کی مورتیاں بنا کر ان ( بندگان خاص ) کی روحوں کی طر ف متوجہ ہونے کا ایک وسیلہ قرار دیا تھا،لیکن رفتہ رفتہ جہلاء نے ان پتھروں ہی کو اپنا اصلی معبود سمجھنا شروع کردیا اور خلط عظیم واقع ہو۔

نیز حضرت شاہ صاحب حجۃ اللہ البالغۃ میں لکھتے ہیں:

شرک کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی ایسے شخص کے بارے میں جو قابل تعظیم سمجھا جاتا ہے، یہ عقیدہ رکھے کہ اس سے جو غیر معمولی افعال وواقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں، وہ اس بناء پر ہیں کہ یہ شخص صفات کمال میں سے کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف ہے، جس کا مشاہدہ نوع انسانی کے افراد میں نہیں ہوا، وہ صفت واجب الوجود جل مجدہ کے ساتھ مخصوص ہے، اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی اس کی چند شکلیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ وہ واجب الوجود اپنے کسی مخلوق کو خلعت الوہیت سے سرفراز کرے، یا وہ مخلوق ذات الہی میں فنا ہو کر باقی باللہ بن جائے، یا اسی طرح کی کوئی شکل جو اس عقیدہ کے حامل نے اپنی طرف سے گڑھ لی ہو، حدیث میں مشرکین کے جس تلبیہ ( حج میں لبیک لبیک کہنا ) کے الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ اسی عقیدہ کا ایک نمونہ اور اس کی مثال ہے، حدیث میں آتاہے کہ مشرکین عرب ( جاہلیت میں اسلام قبول کرنے سے پہلے ) ان لفظوں میں لبیک کہتے تھے:لبیک لبیک لا شریک لک، الا شریکا ھو لک تملکہ و ماملک:خدایا حاضر ہوں ہوں تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جو تیرا بندہ خاص ہے تو اس کا بھی مالک ہے اور اس کی مملوکات کا بھی مالک۔

اس بناء پر یہ معتقد اس ہستی کے لئے ( جس کو وہ خدا کے بعض صفات کا حامل اور خلعت الوہیت سے سرفراز سمجھتا ہے ) اپنے انتہائی تذلل اور فروتنی کا اظہار کرتا ہے، اور اس کےساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو بندوں کو خدا کے ساتھ کرنا چاہیے۔

حجۃ اللہ البالغۃ میں ایک دوسری جگہ مشرکین کے شرک کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اور اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تبارک وتعالی کے بارے میں ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ( جو صحیح عقیدہ کے حامل ہیں ) کئی باتوں پر اتفاق تھا، مشرکین عرب وجود باری اور اس کی یگانہ شان اور قدرت مطلقہ کے منکر نہیں تھے صرف بعض صفات اور اختیارات میں وہ ( خدا ہی کی مرضی اور منشاء ) سے اس کے بعض مقربین ومحبوبین کو شریک اور صاحب اختیا ر سمجھتے تھے، اور اس لئے ان کے ساتھ عبودیت اور بندگی کامعاملہ کرتے تھے باب التوحید کے عنوان کے ماتحت تحریر فرماتے ہیں:

مشرکین اس بارے میں مسلمانوں ہی کے ہم خیال اور ہم عقیدہ تھے کہ امور عظام کے سر انجام اور جس چیز کا اللہ تعالی فیصلہ فرمالیں اور اس کا ارادہ قطعی ہوجائے تو اس میں کسی غیر کا اختیار باقی نہیں رہتا باقی دوسرے امور میں انہوں نے مسلمانوں سے الگ راستہ اختیار کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ زمانہ ماضی کے صلحاء نے عبادت کی کثرت کی اور خدا کا قرب حاصل کیا تو اللہ تعالی نے ان کو الوہیت کا خلعت عطا فرمایا اس بناء پر وہ خدا کے دوسرے بندوں کی عبادت کےمستحق بن گئے ،جیسے کوئی غلام بادشاہ کی خدمت کا حق ادا کردے تو شہنشاہ اس کو بادشاہی کا خلعت عطا فرماتا ہے، اور اپنے ملک کے کسی شہر کا انتظام ا س کے سپرد کر دیتا ہے تو اسی طرح وہ شہر کے باشندوں کی سننے اور بات ماننے کا مستحق ہو جاتا ہے، او اس با ت کے قائل تھے کہ خدا کی بندگی جب ہی قبول ہو سکتی ہے، جب ایسے مقبول اور برگزیدہ بندوں کی غلامی بھی اس میں شامل ہو، بلکہ واقعہ یہ ہے اللہ تعالی انسانوں سے اس قدر بالا و برتر ہے کہ براہ راست اس کی عبادت کچھ کارگر اور اس کی وہاں رسائی نہیں ہے، ضروری ہے کہ ان مقربان بارگاہ الہی کی عبادت کی جائے تا کہ وہ اللہ تک پہنچادیں، وہ کہتے تھے کہ یہ ( مقربین ) سنتے، دیکھتے اور اپنے بندوں کی سفارش کرتے ہیں۔ اور ان کے معاملات کا انتظام کرتے اور ان کی مدد کرتے ہیں، انھوں نے ان کے ناموں پر پتھر تراشے، اور ان کو اپنا قبلہ توجہ بنا لیا، بعد میں وہ لوگ آئے جو ان بتوں اور جن کے نام پر یہ بت تھے، ان کے درمیان فرق کو سمجھ نہیں سکے، اور انہوں نے ان کو بذات خود معبود سمجھ لیا ۔

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں

” مشرکین عرب اس کے قائل تھے کہ اللہ تعالی کا آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں کوئی شریک نہیں، اسی طرح ان دونوں کے درمیان جو اجسام و اشیاء ہیں ان کی خلقت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں، نیز اہم امور کے سر انجام میں بھی کسی کی شرکت نہیں، اس کے فیصلہ کو کوئی ٹالنے والا، اور اس کے حکم قطعی کو کوئی روكنے والا نہیں، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتاہے:وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ.(لقمٰن۔۲۵) اگر تم ان مشركین سے پوچھو كہ آسمان و زمین كس نے پیدا كیا تو وہ یقینا كہیں گے كہ اللہ نے۔

قرآن خود شہات دیتا ہے كہ یہ مشركین خدا كو مانتے تھے، اور اس سے دعابھی كر تے تھے۔ بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ(الانعام،۴۱)بلكہ اسی سے مانگتے ہو۔

نیز فرماتا ہے:ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ (الاسراء۔ ۶۷)اسی سے دعا كرنا كام بناتا ہے، دوسروں سے دعا بیكار جاتی ہے۔

حقیقت میں ان مشركین كی گمراہی اور بے دینی یہ تھی كہ ان كا اعتقاد تھا كہ كچھ فرشتے اور ارواح ہیں جو (بڑے امور كو چھوڑ كر ) اپنے پر ستار كے ان جزئی و ضمنی معاملات كو سنبھال لیتے ہیں، اور ان كا كام كر دیتے ہیں، جن كا تعلق اس كی ذات، اولاد، اموال و املاك سے ہے، ان كے نزدیك ان كا خدا كے ساتھ ایسا ہی تعلق ہے جیسے كسی ناز پر وردہ غلام كا شہنشاہ سے، اور سفارشیوں اور مصاحبوں كا با جبروت بادشاہ سے ہوتا ہے، شرائع الٰہی میں جو كہیں اس بات كا تذكرہ آیا ہے كہ اللہ تعالی نے بعض كام بعض فرشتوں كے سپرد كر دیئے ہیں، یا یہ كہ مُقربین كی دعائیں قبول ہوتی ہیں، ان جاہلوں نے اسی كو بنیاد بنا كر ان كو ایسا صاحب اختیار اور صاحب تصرف مان لیا ہے، جیسے خود بادشاہ بنفس نفیس ہوتے ہیں، حالانكہ یہ قیاس الغائب علی الشاہد تھا، اور اسی سے ساری خرابی پیدا ہوئی۔

اسی طرح شاہ صاحبؒ نے عوام اور خواص مشابہ بعوام كے بہت سے مشركانہ عقائد و اعمال كی جڑ پكڑ لی اور اس مغالطہ كا پردہ چاك كیا، جس كی وجہ سے بہت سے جہلاء اور مدّعیان علم ان اعمال و رسوم، شعائر شرك، نذر و ذبخ لغیر اللہ، بزرگوں كے نام پر روز ے ركھنے، اولیاء و صالحین سے دعا و التجا، خوف و رجا، استمداد و استعانت، ان كے مقامات دفن، اور ان سے نسبت ركھنے والی چیزوں كی حرم شریف اور بیت اللہ كی طرف تعظیم كرنے اور ان كے لیے انہیں آداب كو مرعی ركھنے، ان كے جزئی تصرّف فی الكائنات، انسان كی شقاوت و سعادت، مرض و صحت، فراخی رزق و تنگی میں مؤثر ہونے كے عقیدہٴ مشركانہ میں گرفتار اور ’’ فاعْبُدِ اللہ مُخْلِخصاً له الدين۲‘‘ پر عمل كرنے، اور انابت و اخبات، توكل علی اللہ اور انقطاع الی اللہ كی جیسی بیش بہا دولت سے محروم تھے، اور جن كے بعض احوال سن كر اور اعمال دیكھ كر بے اختیار قرآن مجید كی آیت یاد آتی تھی:وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ اور یہ اكثر خدا پر ایمان نہیں ركھتے مگر (اس كے ساتھ) شرك كرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں