شرک کی تعریف اور اقسام اور حقیقت:پہلی قسط

شرک کی تعریف،اقسام اور حقیقت:پہلی قسط

اللہ تعالی کی ذات یا صفات میں کسی اور کو شریک سمجھنا شرک کہلاتا ہے۔شرک کی دوقسمیں ہیں: شرک حقیقی اور شرک عملی

شرک حقیقی

شرک حقیقی کا دوسرا نام شرک اکبراورشرک اعتقادی ہے۔یہ حقیقی اور واقعی شرک ہے، جس سے انسان مجوسیوں،مشرکین مکہ اورہندؤں کی طرح پکامشرک کہلاتا ہے۔یعنی وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔مسلمان سے اس کا نکاح درست نہیں اور مسلمانوں کے قبرستان میں اس کو نہیں دفنایا جائے گا۔

اس شرک کی صورتیں یہ ہیں:

۱۔یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی ایک نہیں بلکہ زیادہ ہیں،جیسے:مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ دوخدا ہیں:ایک خیر کا دوسرا شر کا۔دونوں میں لڑائی چلتی رہتی ہیں اور آخر کار نیکی کا خدا جیت جاتا ہے ۔ یہ عقیدہ شرکیہ ہےاور یہ ایسا شرک ہے کہ اس سے براءت کا اظہار اور اسلام لائے بغیر عنداللہ اس کی کوئی معافی نہیں۔

۲۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی انسانوں میں حلول کرتے ہیں اور انسانی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں، جیسے بعض عیسائی فرقوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہی خدا ہیں جو آسمانوں سے زمین میں انسانی صورت میں تشریف لائے تھے۔ایسا عقیدہ کوئی بھی رکھے گا قرآن کے مطابق وہ کافرومشرک ہوجاتا ہےاور یہ ایسا شرک ہے کہ اس سے براءت کا اظہار اور اسلام لائے بغیر عنداللہ اس کی کوئی معافی نہیں۔ارشاد باری تعالی ہےـ

{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ [المائدة: 17]جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ یقینا کافر ہوگئے ہیں۔

دوسری جگہ ارشاد ہے{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ [المائدة: 72]وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔

۳۔یہ عقیدہ رکھنا کہ چند اکائیاں مل کر ایک خدا ہیں۔مثلا: عیسائیوں کی طرح یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ، جبرئیل اور عیسی یہ تینوں مل کر ایک خدا ہیں۔جو کوئی بھی ایسا عقیدہ رکھےقرآن کے مطابق وہ کافر ہے۔ یہ ایسا شرک ہے کہ اس سے براءت کا اظہار اور اسلام لائے بغیر عنداللہ اس کی کوئی معافی نہیں۔ارشاد ہے:

{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا إِلَهٌ وَاحِدٌ [المائدة: 73]وہ لوگ (بھی) یقینا کافر ہوچکے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ : اللہ تین میں کا تیسرا ہے ، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔

اسی طرح ارشاد ہے {يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا } [النساء: 171]

اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو، اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو محض اللہ کے رسول تھے اور اللہ کا ایک کلمہ تھا جو اس نے مریم تک پہنچایا، اور ایک روح تھی جو اسی کی طرف سے (پیدا ہوئی) تھی۔ لہذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ مت کہو کہ ( خدا) تین ہیں۔ اس بات سے باز آجاؤ، کہ اسی میں تمہاری بہتری ہے، اللہ تو ایک ہی معبود ہے وہ اس بات سے بالکل پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، اور سب کی دیکھ بھال کے لیے اللہ کافی ہے۔

۴۔یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی صاحب اہل وعیال ہیں۔یہ بھی شرک ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ } [الأنعام: 101]:وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجود ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کہاں ہوسکتا ہے، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟

اسی طرح ارشاد ہے:[وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا [الجن:3] اور یہ کہ : ہمارے پروردگار کی بہت اونچی شان ہے، اس نے نہ کوئی بیوی رکھی ہے، اور نہ کوئی بیٹا۔

ایک جگہ فرمایا :{قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَذَا أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ} [يونس: 68]

(کچھ) لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ اولاد رکھتا ہے،حالانکہ اس کی ذات پاک ہے، وہ ہر چیز سے بےنیاز ہے۔آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ تمہارے پاس اس بات کی ذرا بھی کوئی دلیل نہیں ہے، کیا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ؟

سورہ مریم میں ارشاد ہے :{وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا (88) لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا (89) تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا (90) أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا (91) وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا} [مريم: 88 – 92]

ترجمہ:اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہے۔ (ایسی بات کہنے والو ! ) حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑی سنگین حرکت کی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں۔ کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لیے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔ حالانکہ خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔

۵۔ کسی بت، درخت، ستارے،انسان ،مزار یا کسی بھی چیز کے حوالے سے یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی نے ان سے خوش ہوکرانہیں اپنی عطا سے مستقل اختیارات دے رکھے ہیں،جیسے بادشاہ اپنے وزیروں کو اختیارات منتقل کردیتا ہے، جس کے بعد وزیر خود سے تمام کام بادشاہ سے پوچھے بغیرانجام دیتاہے۔اسے ہر ہر بات کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔یہ الگ بات ہے کہ بادشاہ کسی کام کو خصوصی حکم نامے سے منسوخ کرسکتا یا رکواسکتا ہے لیکن ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔یہ بھی شرک حقیقی ہے۔ہنود ، ستارہ پرست اور مشرکین مکہ کے عقائد اسی طرح کے تھے۔وہ خالق مالک ایک خدا کی ہستی کو مانتے تھے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ خود اللہ تعالی نے بتوں کو یہ مستقل اختیارات دے رکھے ہیں،چنانچہ وہ تلبیہ پڑھتے ہوئے کہتے تھے:لاشریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک ’’اے اللہ! آپ کا کوئی شریک نہیں، آپ ہی اکیلے خدا ہیں لیکن جن جن کو آپ نے خود اختیارات دے دیے ہیں بذات خود انہیں اختیارات نہیں ہیں، آپ کے دینے سے ہیں وہ بھی آپ کے شریک ہیں۔‘‘ یہ مشرکین مکہ کا تلبیہ ہے۔اس تاویل سے وہ مشرک ہونے سے بچے نہیں ،اللہ تعالی نے انہیں بھی مشرک ہی فرمایا۔ اور یہ ایسا شرک ہے کہ اس سے براءت کا اظہار اور اسلام لائے بغیر عنداللہ اس کی کوئی معافی نہیں۔

شرک کی برائی کے عقلی پہلو

1- جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں آسکتیں، اسی طرح اس جہاں میں ایک سے زیادہ خالق نہیں ہو سکتے،اگرایک سے زیادہ خالق ہوتے تو ان میں جھگڑا فساد ہوتا اور نظام کائنات تباہ ہوچکا ہوتا!

2- جب اس کائنات کو تن تنہا اللہ پاک نے بنایا ہے تو نذر ونیاز،عبادت اور سجدہ یعنی ساری کی ساری بندگی بھی اسی ایک اللہ کی ہونی چاہیے۔یہ تو سراسر ناانصافی ہوئی کہ احسان وانعامات اللہ پاک کرتے ہیں اور پوجا کسی اور کو جارہا ہے۔بقول شاعر؎

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتاہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

(جاری ہے۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں