شوہر حقوق زوجیت ادا نہ کرے تو بیوی کے لیے خلع کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

1۔مجھے خلع کے متعلق پوچھنا ہے ،میری شادی کو تین ماہ ہوئے ہیں ۔میرے شوہر کی سابقہ بیوی سے ایک بیٹی بھی ہے ،لیکن میرے شوہر مجھے میرا حق زوجیت نہیں دیتے ۔شادی کے بعد صرف ایک بار ہی صحیح سے ہوپایا ہے ،یا تو سو جاتے ہیں یا کہتے ہیں کہ میں ابھی بیمار ہوں ۔(کبھی کیا بھی ہے تو بے دلی سے اور ہو بھی نہیں پاتا )کیا اس صورت میں ،میرے لیے خلع لینا جائز ہے؟

2۔اور کیا خلع کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کرسکتی ہوں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ خلع کے بعد دوبارہ لڑکی کا نکاح کسی اور مرد سے نہیں ہو سکتا ۔

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

بطور تمہید عرض ہے کہ شریعت میں خلع کی رخصت عورت کے لیے اس وقت ہے جب زوجین کے درمیان نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے مثلاً:شوہرحد سے زیادہ مارپیٹ کرے،نان و نفقہ نہ دے ،حقوق زوجیت ادا نہ کرے ،غرض بالکل وحشیانہ سلوک کرے ۔ان صورتوں میں عورت کے لیے گنجائش ہے کہ کچھ لین دین کر کے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرلے ۔

اب جواب ملاحظہ ہو:

شوہر پر بیوی کا یہ شرعی حق ہے کہ وہ حقوق زوجیت ادا کرے،اگر وہ بغیر کسی شرعی عذر کے حقوق ادا نہیں کرتا تو پہلے مرحلے میں دونوں خاندانوں کے سمجھدار افراد کے سامنے معاملہ رکھا جائے وہ شوہر کو سمجھائیں ۔ اگر بیماری کی صورت ہے تو علاج معالجہ کا موقع دیں ۔اس کے باوجود بھی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دیانتاً اس کے اوپر لازم ہے کہ وہ عورت کو طلاق دے دے ۔

تاہم اگر وہ طلاق دینے پر بھی راضی نہیں ہے اور عورت کو گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو عورت خلع لے سکتی ہے ۔

چنانچہ ابوداؤد شریف میں ہے :

”حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں ثابت کے اخلاق اور اُن کی دین داری کے بارے میں تو کوئی عیب نہیں لگاتی ؛ لیکن مجھے اُن کی ناقدری کا خطرہ ہے ( اِس لیے میں اُن سے علیحدگی چاہتی ہوں ) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’ اُنہوں نے جو تمہیں باغ مہر میں دیا ہے وہ تم اُنہیں لوٹادوگی ؟ ‘‘ تو اہلیہ نے اِس پر رضامندی ظاہر کی ، تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا کہ : ’’ اپنا باغ واپس لے لو اوراِنہیں طلاق دے دو ‘‘ ۔

( باب الخلع ۱ ؍ ۳۰۳ ، تفسیر ابن کثیر مکمل ۱۸۳-۱۸۵ ریاض )

2۔ یہ بات درست نہیں کہ خلع کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی ۔بلکہ عدت گزار کردوسرے مرد سے اور اورگر سابقہ شوہر نے تین سے کم پر خلع کیا ہو تو عدت کے اندر اس سے بھی نکاح کرسکتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ، وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ ۔ ( البقرۃ : ۲۲۹ )

(۲) ولا بأس بہٖ عند الحاجۃ للشقاق بعدم الوفاق ( الدر المختار ) وفي القہستاني عن شرح الطحاوي : السنۃ إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أہلہما لیصلحوا بینہما ، فإن لم یصطلحا جاز الطلاق والخلع ۔ ( الدر المختار مع الشامي ، کتاب الطلاق / باب الخلع ۵ ؍ ۸۷ زکریا )

(۳) وفي الہدایۃ : وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللّٰہ تعالیٰ ، فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلعہا ۔ ( الفتاویٰ التاتارخانیۃ ، کتاب الطلاق / الفصل السادس عشر في الخلع ۵ ؍ ۵ رقم : ۷۰۷۱ زکریا ، الفتاویٰ الہندیۃ ، کتاب الطلاق / الباب الثامن في الخلع وما في حکمہ ۱ ؍ ۴۸۸ قدیم زکریا ) الخلع جائز في الجملۃ سواء في حالۃ الوفاق والشقاق ۔ ( الموسوعۃ الفقہیۃ ۱۹ ؍ ۲۴۰ الکویت )

(۴) وإذا کان بالزوج جنون، أو جذام، أوبرص فلا خیار للمرأۃ عند أبي حنیفۃؒ، وأبي یوسفؒ۔ (مختصر القدوري، کتاب النکاح، امدادیہ دیوبند ۱۶۵، البحرالرائق، زکریا۴/۲۱۳، کوئٹہ۴/۱۲۶، شامي، کراچي۳/۵۰۱، زکریا۵/۱۷۵) فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

(۵) إذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ أن یتزوجہا فی العدۃ وبعد انقضائہا۔ (ہندیہ، زکریا قدیم ۱/۴۷۲، جدید ۱/۵۳۵، ہدایہ، اشرفی دیوبند ۲/۳۹۹

فقط واللہ اعلم۔

۲۶/اکتوبر/۲۰۲۱

۱۹/ربیع الاول/۱۴۴۳ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں