سرکاری ملازم کو خریداری کے وقت ملنے رعایت کا مالک کون

سوال: میں ایک سرکاری ملازم ہوں ۔ بعض اوقات مجھے کچھ سامان خریدنے کے لیے محکمہ سے رقم ملتی ہے میں جب وہ سامان خرید کر لاتا ہوں تو  بعض دفعہ اس دکاندار سے میرے ذاتی تعلقات کی وجہ سے مجھے رعایت کی جاتی ہے اس رعایت کی وجہ سے مجھے پیسے بچ جاتے ہیں کیا میں یہ بچی ہوئی  رقم لے سکتا ہوں؟ جبکہ میں نہ تو سامان کی مقدار اور نہ ہی اس کی کوالٹی پر کوئی سمجھوتا کرتا ہوں؟

سائل : محمد عثمان

الجواب حامداومصلیا

               مذکورہ صورت میں اگر سائل محکمہ کی طرف  سے سامان کی خریداری کا ذمہ دار ہے تو سائل محکمہ کی طرف سے خریداری کا وکیل  ہے اور وکیل کو امانت کی پاسداری ضروری ہے۔لہٰذا  خریداری  کرنے پر رعایت کی وجہ سے بچ جانے والی رقم سائل خود نہیں رکھ سکتا بلکہ اس رقم کو محکمہ میں واپس کرنا ضروری ہے۔اور اگر محکمہ کے مالیاتی فنڈ میں واپسی ممکن نہ ہو  یاافسران بالا  سے بھلائی کی توقع نہ ہو تو یہ رقم محکمہ کی ضرورت کی دیگر اشیاء  کی خریداری میں استعمال کرلی جائے۔سائل کو اس رقم کا  ذاتی مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں۔

البتہ اگر سائل  کی ذمہ داریوں میں مال خریدنا شامل نہ ہو بلکہ الگ سے کبھی کبھار خریدنے کے لیے سائل کو بھیجا جاتا ہوتو ضابطہ  یہ ہے کہ اجرت طےکیےبغیر  بچ جانے والی رقم کا سائل کے لیے رکھنا جائز نہیں،اجرت طے کرنے کی صورت  یہ ہوگی مثلاً:یوں کہے کہ جتنے کی چیزہوگی اس پر100 روپے اجرت رکھوں گا،یا یوں وضاحت کرے کہ میں آپ کو مارکیٹ سے یہ چیز 150 میں لاکردے دوں گا،اب  دکاندار سے اگر کم پیسوں میں مل جائے تب بھی اضافی  رقم رکھ سکتا ہے۔البتہ چند صورتوں میں بچ جانے والی رقم  بطور کمیشن کے سائل کے لیے رکھنے کی گنجائش ہے:

1۔۔۔سائل جس چیز کا کاروبار کرتا ہو اس سے وہی چیز منگوائی جائے تو وہ کمیشن رکھ سکتا ہے ،مثلاً اس کی موبائل کی دکان ہے اور   اس کو اپنی  دکان سے موبائل خریدنے  کا کہا جائے ۔

            2 ۔۔۔یہ بات معروف ہو کہ سائل کام کے عوض اپنی اجرت کمیشن کی مد میں رکھتا ہے تو بغیر طے کیے  بغیر بھی  سائل کمیشن رکھ سکتا ہے۔

3 ۔۔۔اس  علاقے یا متعلقہ ادارے  کا عرف ہو کہ  اضافی کام کرنے کے عوض اجرت ؛کمیشن  دیا جاتا ہو۔

جاری ہے۔۔۔

مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہ ہو تو سائل  طے کیے بغیر کمیشن  نہیں رکھ سکتا۔

الحجة علی ما قلنا

  • ما في القران الکریم : (النساء :۵۸)

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا

(مسلمانو) یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ (آسان ترجمہ قرآن)

  • ما في تفسیر المظهري تحت هذه الایة :

لکن الایة بعموم لفظها یفید وجوب أداء کل أمانة إلی اهلها، عن أنس قال: قلماخطبنا رسول الله ﷺ إلا  قال: ’’ لا إیمان لمن لا أمانة له ولا دین لمن لا عهد له‘‘۔ رواه البیهقی في شعب الإیمان۔

  • ما فی مشكاة المصابيح ، باب الغصب والعاریة ، الفصل الثانی ۱/۲۶۱ مكتبه رحمانیه

وَعَن أبي حرَّة الرقاشِي عَن عَمه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَلا تَظْلِمُوا أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»

  • ما في ’’الفقه الإسلامي وأدلته : كتاب الوكالة ، ۵/۴۱۰۹ رشیدیه

اتفق الفقهاء علی أن المقبوض في ید الوکیل یعتبر أمانة بمنزلة الودیعة ۔

  • ما فی المجلة الاحکام العدلیة:الكتاب الحادی عشر فی الوکالة، الباب الثالث، الفصل الاول، مادة ۱۴۶۷

اذا اشترطت الاجرة فی الوکالة واوفاها الوكیل فیستحقها، وان لم تشترط ولم یکن الوكیل ممن یخدم بالاجرة فیکون متبرعا ولیس له مطالبة الاجرة۔

  • وفی شرح المجلة ل محمد خالد الاتاسی،تحت شرح المادة ۱۴۶۷ :۴/۴۱۵ دار الکتب العلمیة بیروت

وانما یجب للوكیل اجر علی عمله ان شرط له ذلک صریحا او بدلالة العرف والعادة بان کان الوكیل ممن جرت عادته ان یعمل باجرة کالدلال والسمسار وكتجار زماننا فان العرف والعادة قد جرت بان احدهم یعمل لغیره باجرة یسمونها معلوما وکوکلا الدعاوی فانهم كذالك فان مثل هذا یستحق اجرة مثل عمله علی ما بینا  وان لم یشترط له ذلک صریحا لان المعروف کالمشروط

  • ما فی الفتاوى الهندية : کتاب الاجارة، باب بیان حکم اجیر الخاص والمشترك ۴/۵۷۰ قدیمی

والأجير الخاص من يكون العقد واردا على منافعه ولا تصير منافعه معلومة إلا بذكر المدة أو بذكر المسافة. كذا في التبيين.وحكم أجير الوحد أنه أمين في قولهم جميعا

  • ما فی الفتاوی التاتارخانیة، زکریا ۸/ ۱۹۶، رقم: ۱۱۶۲۳

ولو فضل من الخشب ونحوه شيء فهو علی وجهین: إن کان یقدر علی أربابها یشاورهم القیم في ذلک، وإن کان لا یقدر علی أربابها فللقیم أن یفعل بها ما یری، وفي جامع الجوامع: وما فضل من الخشب ونحوه جاز صرفه في قنطرة أخری بجنبها بمشورة أربابها

  • ما فی رد المحتار باب الإجارة الفاسدة ۶؍۴۷ ایچ ایم سعید

قال في رد المحتار نقلا عن البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل

واللہ اعلم بالصواب

محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں