سکون اور پریشانی اللہ کی طرف سے ہے

السلام علیکم

مجھے کچھ پوچھنا تھا کہ میری لائف بہت اچھی ہے، اللہ کا کرم ہے سے اور لائف میں سکون ہے کوئی پریشانی آتی بھی ہے تو اللہ کے کرم سے بچ جاتے ہیں مطلب جلدی ہم نکل جاتے ہیں ماشااللہ۔ ہر چیز ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ میری دعا بھی اللہ پاک بہت جلدی قبول ہو جاتی ہے۔

بس یہ پوچھنا تھا کہ اللہ پاک مجھ سے ناراض تو نہیں ؟ کہتے ہیں کہ اللہ پاک اپنے پسندیدہ بندوں سے امتحان لیتے ہیں تو بس اس کا جواب دے دیں۔ اگر میں کچھ غلط کہہ رہی ہوں تو اللہ پاک معاف فرمائے، غلط نیت نہیں تھی۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

جواب سے پہلے چند باتیں بطور تمہید کے ملاحظہ ہوں:

1. احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ اللہ کے نیک بندوں پر آزمائشیں زیادہ آتی ہیں۔

2.آزمائش کا نہ آنا یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی دلیل نہیں،چنانچہ بہت سے صحابہ اور اللہ والے آخری وقت تک خوش حال زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔

3.آزمائش کا نہ آنا بھی ایک آزمائش ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتے ہیں کہ خوش حالی میں بندہ مجھے کتنا یاد کرتا ہے!!

اب جواب ملاحظہ ہو:

آزمائش کا نہ آنا اللہ کی ناراضی کی دلیل نہیں،بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جو بھی خوشیاں اور نعمتیں اللہ کی طرف سے عطا ہوں ان پہ شکر ادا کیا جائےاور آزمائش کے بجائے عافیت مانگی جائے، احادیث مبارکہ میں اسی کی تلقین کی گئی ہے،تاہم اگر آزمائش آجائے تو اس پر صبر کیا جائے،ان شاءاللہ!یہ درجات کی بلندی کا سبب بنے گی۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

’’عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ أَیَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔‘‘

’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرا رہااور پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اور عرض کی : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا : اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔”(ترمذی،ابواب الدعوات، ج:۲،ص:۱۹۱،ط:قدیمی)

“الأَنْبِیَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ، فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِینِہٖ، فَإِنْ کَانَ دِینُہ، صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُہ،، وَإِنْ کَانَ فِي دِینِہٖ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلٰی حَسَبِ دِینِہٖ، فَمَا یَبْرَحُ البَلَاءُ بِالعَبْدِ حَتّٰی یَتْرُکَہ، یَمْشِي عَلَی الأَرْضِ مَا عَلَیْہِ خَطِیئَۃٌ .​

”سب زیادہ مصائب انبیائے کرام کو آئیں، پھر ان سے کم فضیلت والوں کو، پھر ان سے کم فضیلت والوں کو۔ یعنی آدمی کو دینداری کے مطابق آزمایا جاتا ہے، دین میں جس قدر مضبوطی ہو، مصیبت میں اسی قدر شدت ہوتی ہے، دین میں ڈھیلا پن ہو، تو آزمائش بھی اسی طرح کی ہوتی ہے۔ مؤمن بندہ بلاؤں کا شکار رہتا ہے، حتی کہ جب اس کا پیچھا چھوڑتی ہیں، تو گناہوں سے پاک زمین پر پھرتا ہے۔”​

{مسند الإمام أحمد : ٣/١٢٨، سنن التّرمذي : ٢٣٩٨}

فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں