سورۃ الفاتحہ کے احکام کاخلاصہ

  •   تعارف: سورۃالفاتحہ سات آیات پرمشتمل ہے۔ یہ مکہ میں بھی نازل ہوئی اور مدینہ میں بھی نازل ہوئی۔ (تفسیرکبیر160:1علوم اسلامیہ)

    خصوصیات: ١۔۔۔۔۔۔یہ سورت ایک حیثیت سے پورے قرآن بلکہ تمام آسمانی کتابوں کا متن ہے اور سارا قرآن اس کی شرح ہے،اسی وجہ سے سورۃالفاتحہ کے نام اُمّ القرآن ،اُمّ الکتاب اورقرآن عظیم بھی صحیح احادیث میں آئے ہیں۔ (قرطبی) ٢۔۔۔۔۔۔قرآن سورۃ الفاتحہ سے ہی شروع ہوتا ہے،نمازاسی سے شروع ہوتی ہے ا ور نزول کے اعتبار سے بھی پہلی سورت جو مکمل طور پر نازل ہوئی یہی سورت ہے۔

    فضیلت: آپﷺنے فرمایا: ”سورۃفاتحہ ہر بیماری کی شفا ہے۔” (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، بسند صحیح کما فی المظہری)

    اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم میں اﷲ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود سے

    تعوّذ کے احکام: قرآن پاک کی تلاوت سے پہلے اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم پڑھنا مسنون ہے۔

    تعوذ قرآن کا جزو نہیں۔

    شیطانی وسوسے کی صورت میں اور اسی طرح وضو کے شروع میں تعوذ پڑھنا چاہیے۔ ٭۔۔۔۔۔

    ۔ان مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ تعوذ نہیں ہے۔

    بسم اﷲ الرحمن الرحیم اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔

    تسمیہ کے احکام: بسم اﷲ الرحمن الرحیم قرآن کا جزو ہے۔

    * بے وضو ہونے کی حالت ،جنابت اورحیض و نفاس کی حالت میں بسم اللہ کوہاتھ لگانا جائز نہیں۔

    * جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں بسم اللہ کو تلاوت کی نیت سے پڑھنا جائز نہیں۔

     * ہر اچھے کام کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔

    * کوئی سورت ابتداء سے پڑھ رہے ہوں توبسم اللہ سے ابتدا کرنا بہتر ہے۔

    * اکثرفقہاء احناف نے نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے آہستہ آواز میں بسم اللہ پڑھنے کو واجب قرار دیا ہے ۔ (احکام القرآن حضرت تھانوی:جلد1، صفحہ54)

    * اللہ کو اللہ کہنا افضل ہے بہ نسبت خدا کہنے سے،یہ الگ بات ہے کہ اللہ کو خدا کہنا بالاجماع جائز ہے۔

    * رحمن یہ نام اللہ کے ساتھ خاص ہے،کسی اور کو رحمن کہنا جائز نہیں جبکہ رحیم کسی اور کو کہنا جائز ہے۔

    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o تمام تعریفیں اﷲ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

    * اللہ خود اپنی تعریف کرسکتے ہیں۔ بندوں کے لیے اپنے آپ کی تعریف مکروہ ہے۔ (سورہ نجم، آیت 32)

    * اللہ کی طرف اچھائیوں کی نسبت کی جائے برائیوں کی نہیں۔ رب کے کا معنی ہے پرورش کرنے والااس لفظ سے کئی مسائل نکلتے ہیں

    * اللہ تعالی فارغ اور بےکار نہیں رہتے۔

    *اللہ موجود ہیں تب ہی تو ہر چیز کی صحیح صحیح پرورش ہو رہی ہے۔

    * جب پالنے والی ذات اللہ کی ہے تو عبادت بھی اللہ ہی کی ہونی چاہیے۔ اس سے توحید ثابت ہوئی۔

    *کسی بھی نعمت کے شکر میں الحمد للہ کہنا چاہیے۔

    * اس کائنات کے علاوہ بھی کئی جہاں ہیں۔

    الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ o جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔

    * جب اللہ کے کئی نام ہیں تو مخلوقات میں سے کسی چیز کے بھی کئی نام رکھے جاسکتے ہیں۔ (کما ورد فی صحیح البخاری)

    * نام اچھے رکھنے چاہییں۔شرکیہ اور لا یعنی نام نہیں رکھنے چاہییں۔

    * اللہ کی صفت رحمت دوسری صفات پر غالب ہے۔

    * تعلیم کا طریقہ یہی ہے کہ رحمت اور شفقت کے ساتھ تعلیم دی جائے نہ کہ انتقامی جذبات اور غصہ سے ۔

    فائدہ : امام رازی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیکے ایک ہزار ایک مقدس نام ہیں۔ (تفسیر کبیر:1/23)

    مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ o جو روز جزا کا مالک ہے۔

    *۔قیامت برحق ہے قیامت آکر رہے گی۔

    *قیامت کا تصور ضروری ہے تا کہ نیکی کرنے والوں کو نیکی کا بدلہ اور برائی کرنے والوں کو برائی کا بدلہ مل جائے۔

    اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o اے اﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مانگتے ہیں۔

    ٭اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی عبادت جائز نہیں ۔ عبادت کا معنی ہے نفع نقصان کا مالک سمجھ کر کسی کی تعظیم کرنا۔

    ٭جو چیزیں دنیاوی اسباب و وسائل کے تحت نہیں آتی جیسے:اولادعطا کرنا وغیرہ،ان میں غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز نہیں جبکہ وہ چیزیں جو دنیاوی اسباب و وسائل کے تحت آتی ہیں جیسے:سودا لینا ،دوائی لینا، ان میں کسی سے مدد لینا جائز ہے۔

    اِھدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o (ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما!)

    ٭انسان دنیا میں سب سے زیادہ محتاج ہدایت کاہے۔

    ٭اس ہدایت پر چلنا ضروری ہے جوانبیاء کرام کے ذریعے سے دنیا میں اللہ تعالی بھیجتے ہیں۔

    صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تونے انعام کیا۔

    ٭صراط مستقیم یہ وہ راستہ ہے جس پر انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین چلے۔

    ٭ہدایت کے لےے صرف کتاب اللہ کافی نہیں بلکہ کتاب اللہ پرعمل کرنے والے یعنی رجال اللہ کادامن تھامنابھی ضروری ہے۔

    ٭نیک لوگوں کی راہ پر چلنا یعنی تقلید کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ وہ تقلید جائز نہیں جو جاہلوں اور نا اہلوں کی کی جائے ۔

    غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo

    (نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہو، اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔ )

    ٭یہود و نصاری کامیا ب نہیں ہیں اگرچہ وہ توحید اور قیامت کے قائل ہوں۔

    ٭علم بغیر عمل کے بے کار ہے ۔وہ علم جس کے ساتھ عمل نہ ہو وہ اللہ کے غضب کو لاتا ہے اورجہالت یعنی علم ہی نہ ہونا ، گمراہی پیدا کرتا ہے۔

    ٭بچوں کو پہلے عقائد سکھانے چاہیے جیسے اللہ تعالی نے پہلے عقائد سکھائے۔ 

    ٭دُعا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ کی حمدو ثناکی جائے پھر عاجزی اور بندگی کا اعتراف کیا جائے اس کے بعد اپنی مراد مانگی جائے۔آخر میں آمین بھی کہنا چاہیے ۔شرک، بدعت اور گمراہی سے دور رہنے اور صراط مستقیم کی دعا مانگنی چاہیے۔ 

    سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے:پہلی تین آیات میں وجود الہی،توحید، قیامت اور اللہ کی صفات کا بیان ہے یعنی عقائد کا ذکر ہے پانچویں آیت میں شریعت اور ہدایت کا تذکرہ ہے چھٹی اورساتویں آیت میں گزشتہ قوموں کے احوال وواقعات اور علم حدیث کا ذکر ہے۔ ٭۔۔۔۔۔۔

    سورہ فاتحہ کسی پارے کا جزو نہیں بلکہ تمہید اور مقدمہ ہے،معلوم ہوا کہ کسی بھی کتاب سے پہلے مقدمہ ہونا چاہیے۔ ٭۔۔۔۔۔

    ۔سورہ فاتحہ خود ایک دُعا ہے۔ 

    سورہ فاتحہ کے انداز سے ہمیں بادشاہوں سے بات کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ 

    سورہ فاتحہ کو چونکہ نبی کریم ﷺنے شفاء قراردیا ہے اس لیے سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کے کسی اورحصے کو بطور جھاڑ پھونک استعمال کرنا جائز ہے۔

     
     
  •  

اپنا تبصرہ بھیجیں