شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم کا طلبہ سے خطاب

موضوع: سیاست اور انتخابات

📣 ضروری وضاحتیں:

▪ سیاست دین سے الگ نہیں،سیاست دین کا حصہ ہے۔

▪لیکن تقسیم کار کے اصول کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں صرف تعلیم ہونی چاہیے ،تعلیمی ادارے سیاست میں عملا قدم رکھیں گے تو اس کے مہلک نتائج برآمد ہوں گے ۔

▪ اسی وجہ سے ہمارا طریقہ کار یہی رہا ہے کہ نام لے کر کسی بھی سیاسی جماعت یا امیدوار کی حمایت کرتے ہیں نہ سیاسی جلسے جلوسوں میں جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ہمارے ہاں ہرقسم کے لوگ آتے ہیں۔ہرپارٹی کے لوگ آتے ہیں۔ہمارے دروازے نہ کسی کے لیے بند ہیں نہ ہم کسی کے ساتھ نتھی ہیں؛تاکہ ہر طرح کے لوگوں تک دین کی بات پہنچ سکے۔

▪البتہ ووٹ ڈالنا کیونکہ شرعی فریضہ ہے اس لیے اس کی ترغیب ضرور دیتے ہیں اور اس کے لیے اصولی باتیں اور شرعی مسائل بتادیتے ہیں تاکہ ہر شخص اپنے ضمیر کے مطابق اوراپنے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے خود ہی فیصلہ کرلے کہ وہ کس کو ووٹ دے اور کس کو نہ دے۔

ووٹ دینے کے شرعی مسائل:

 جب انتخابات ہورہے ہوں تو ووٹ ڈالنے جانا ہمارا شرعی فریضہ ہے۔اس فریضے کو ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

 ووٹ شہادت کی طرح ہے۔ گویا ہمیں شہادت دینے کے لیے بلایا جارہا ہے کہ آپ کی نظر میں کون سا امیدوار بہتر ہے تو یہ ہمارا فرض بن جاتا ہے کہ جب گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو انکار نہ کیا جائے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے :

ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا 

اس آیت میں گواہی چھپانے سے منع فرمایا گیا ہے، اب ہم پر فرض ہوجاتا ہے کہ گواہی دیں۔

انتخابات کے موقع پر ایسے شخص کو ووٹ دینا چاہیے جو زیادہ بہتر ہو، زیادہ امانت دار ہو، زیادہ دیانت دار ہو، اس سے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے کی توقع ہو۔

 اگر بہت سارے لوگ انتخابات میں کھڑے ہیں لیکن دین داری نہیں ہے تو اھون البلیتین پر عمل کرتے ہوئے ان میں سے ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہیے جو ان سب میں سب سے زیادہ ملک وملت کے لیے بہتر ہو اور دوسروں کے مقابلے میں غنیمت ہو اور اس کا شر دوسروں کی بنسبت کم ہو۔

 ہم نے کسی ایسے شخص کو ووٹ دیا جو ہمارے نزدیک زیادہ دیانت دار، زیادہ خدمت گزار، زیادہ دین سے تعلق رکھنے والا ہے تو ہم نے اپنا فریضہ ادا کردیا، اب وہ جیتے یا نہ جیتے ہمارا فرض ادا ہوگیا۔

 اگر کوئی آدمی ہے جس کے بارے میں ہماری رائے ہے کہ یہ آدمی اچھا ہے، دیانت دار ہے، پرہیز گار ہے، لیکن اس کے کامیاب ہونے کی کوئی قوی امید نہیں ہے تو ہم یہ نہ سوچیں کہ ہم اس کو ووٹ دے کر اپنا ووٹ کیوں ضائع کریں، ہم کسی اور کو ووٹ دے دیتے ہیں، یہ خیال بالکل غلط ہے، جس کو ہم بہتر سمجھتے ہیں اس کے حق میں رائے دینا ہمارا فرض ہے۔

اگر ایک اچھے، نیک صالح، پرہیز گار، محب وطن، علم دوست کے بارے میں ہمارا یہ خیال ہو کہ اس کو ووٹ اس لیے نہیں دینا کہ اس کی کامیابی کی کوئی امید ہی نہیں ہے، کیونکہ اس کے حق میں پڑنے والے ووٹ کی تعداد ہی بہت کم ہوگی تو یہ تاثر غلط ہے۔ دیکھیے!اگر ہم اس کو اپنا ووٹ نہیں دیں گے تو اس سے عام تاثر یہ پیدا ہوگا کہ دین دار، امانت دار کی اس ملک میں کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ اگر وہ ہار بھی جاتا ہے تو دنیا یہ تو دیکھے گی کہ چلو اس کو اتنے ووٹ تو ملے ہیں، اس کا وزن کتنا ہے یہ پتا چلے گا لوگوں کو۔ ہم ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے تو لوگوں کو دین داروں کا وزن اور مقام کیسے پتا چلے گا؟ اس لیے ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں یا کم ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ ملک کے مفاد کے لیے کتنا زیادہ بہتر ہے اور زیادہ بہتر طریقے سے ملک کی اور عوام کی خدمت کرسکتا ہے اور اس کی وجہ سے دین کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے تو ایسے شخص کو ووٹ ڈالنا ہمارا فریضہ ہے چاہے وہ جیتے یا ہارے اس سے ہمیں سروکار نہیں ہے، کیونکہ ہمارا یہ کام اللہ کے لیے ہے۔ہم اللہ تعالی کے سامنے اپنے اس عمل کے جوابدہ ہیں۔ہم نے محض اللہ تعالی کی رضا اور اس کے دین کی بہتری کے لیے جسےاپنے ضمیر کے مطابق بہتر سمجھیں اسے ووٹ دینا ہے۔

 اس کے لیے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی ان لوگوں کو کامیاب فرمائے جو ملک وملت کے لیے بہتر ہوں۔

ترتیب : صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

www.suffahpk.com

آڈیو موصول ہونے کی تاریخ:23 جولائی 2018

اپنا تبصرہ بھیجیں