تفسیر قرآن کے مآخذ (گلدستہ قرآن چوتھا سبق)

تفسیر قرآن کے مآخذ
گزشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کرلیا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کے چھ مآخذ ہیں:ایک خود قرآن کریم، دوسرا حدیث رسول ،تیسرا صحابہ کرام سے منقول تفسیر،چوتھاتابعین سے منقول تفسیر جبکہ کسی تابعی نے اس کی مخالفت نہ کی ہو۔پانچواں عرب جاہلیت کا عربی ادب اور اس وقت کے محاورات۔ اور چھٹاماخذ ہے مستنداہل علم کاتدبرواستنباط۔
تفسیر القرآن بالقرآن کی مثالیں:
قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی کئی مثالیں ہیں:
1۔ان تبدوا مافی انفسکم اوتخفوہ یحاسبکم بہ اللہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وساوس پر بھی پکڑ ہوگی اس کی تفسیر اگلی آیت {لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ} [البقرة: 286]میں کردی گئی کہ وساوس پر پکڑ نہیں بلکہ وساوس آئیں اور انہیں دل میں جمالیں تب پکڑ ہے۔
2۔قل الانفال للہ والرسول کی وضاحت {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [الأنفال: 41] سے کردی گئی۔
3۔ انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ میں لیلۃ مبارکۃ سے کیا مراد ہے؟ شب براءت یا شب قدر؟اس کا جواب سورۃ القدر میں موجود ہے: انا انزلنہ فی لیلۃ القدر
اس کے علاوہ سورہ فاتحہ میں انعمت علیھم کی تفسیر وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا [النساء: 69]سے اور فتلقی آدم من ربہ کلمات میں کلمات کی تفسیر رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ [الأعراف: 23]سےالذین امنواولم یلبسوا ایمانھم بظلم میں ظلم کی تفسیر ان الشرک لظلم عظیم یعنی شرک سے ؛یہ سب تفسیر القرآن بالقرآن کی مثالیں ہیں۔
تفسیر القرآن بالحدیث کی مثالیں:
قرآن کی تفسیر حدیث سےہو اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
1۔قرآن کریم میں ہے کہ جن مومنین کو نامہ ٔ اعمال دائیں ہاتھ میں دیاجائے گاان کا حساب آسان لیاجائے گا جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ جس کسی سے حساب لیا گیا وہ پکڑ میں آگیا۔ان دونوں باتوں میں بظاہر تعارض ہے اس کا جواب حدیث میں آیا کہ جن حضرات کو دائیں ہاتھ میں نامہ ٔاعمال دیا جائے گا ان کا حساب آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پیشی ہوگی اور اعمال نامہ صرف دکھایاجائے گا، سوال جواب نہیں ہوں گے۔
2۔قرآن کہتا ہے : “من یعمل سوء یجزبہ” یعنی کوئی شخص معمولی سا بھی گناہ کرے گا اس کی سزا اسے دی جائے گی۔یہ آیت بہت خوف پیدا کرتی ہے ۔انسان مایوس ہوسکتا ہے کہ تھوڑا بہت گناہ تو ہرانسان سے ہوہی جاتا ہےمطلب ہرانسان جہنم میں جائے گا ۔اس کی تفسیر حدیث شریف میں کی گئی کہ سزا کا یہ مطلب نہیں کہ جہنم ہی کی صورت میں سزا دی جائے گی بلکہ اس میں عموم ہے انسان کو دنیا میں مختلف قسم کی تکالیف کا سامناکرنا پڑتا ہے،امراض کا سامناکرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ کوئی ٹھوکر لگ گئی یا کانٹا چبھ گیا تو یہ بھی سزا ہے اور اس سے بھی گناہوں کی تلافی کی جاتی ہے۔
3۔لھم البشری کی تفسیر سچے خوابوں سے کی گئی۔الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ [النور: 2]کی تفسیر اس سے کی گئی کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیاجائے گا جبکہ سوکوڑوں کی سزا غیر شادی شدہ زانی کے لیےہے۔غیر المغضوب علیھم کی تفسیریہودسے اور الضالین کی تفسیر نصاری سے؛یہ بھی تفسیرالقرآن بالحدیث ہی کی مثالیں ہیں۔ ویسے دیکھاجائے تونبی کریم ﷺ کی ساری زندگی اور احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ قرآن کریم کی تفسیر ہی تو ہے۔
تفسیر القرآن باقوال الصحابہ کی مثالیں:
قرآن کی تفسیر صحابہ کرام نے کی ہو اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
1۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ محکمات سے مرادسورہ انعام کی آیت 151سے 153اور سورہ بنی اسرائیل کی تیرہ آیات مراد ہے۔
2۔وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَاکی تفسیر حضرت عبداللہ بن مسعود برقع اور لمبی چادر جس سے عورت پردہ کرتی ہے، سے کی ہے۔ یعنی عورت باہر نکلتے ہوئے ہر چیز چھپائے ، ہاں برقع اور چادر تو ظاہر ہونی ہی ہے اس لیے اس کا پردہ نہیں۔ جبکہ عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چہرہ، ہتھیلیاں اور پاؤں ہیں کہ یہ اعضا ستر کا حصہ نہیں،انہیں بوقت ضرورت کھول سکتے ہیں۔
3۔ أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا [الأنبياء: 30] کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے یہ کی ہے کہ آسمان زمین پہلے بندتھے یعنی بارش نہ ہوتی تھی اللہ تعالی نے انہیں اس طرح کھولا کہ ان میں بارش پیدافرمادی۔
تفسیر کے غیرمستند مآخذ
تفسیر کے مستند مآخذ وہی ہیں جن کا ابھی اوپر ذکر ہوا یعنی قرآن، سنت رسول اللہﷺ، اقوال صحابہ ، اقوال تابعین ،لغت عرب اور تدبرواستنباط ۔ان کے مقابلے میں تفسیر کے کچھ غیرمستند مآخذ بھی ہیں جن سے احتیاط برتناضروری ہے۔
1۔اسرائیلی روایات تفسیر قرآن کامستند ماخذ نہیں۔اسرائیلیات میں سے صرف وہ روایات معتبر ہیں جو قرآن وسنت کے مطابق ہوں،اس کے برعکس وہ روایات جو قرآن وسنت کے خلاف ہوں جیسے وہ روایات کہ سلیمان علیہ السلام نے آخری عمر میں جادوگری اختیار کرلی تھی یا حضرت داؤد علیہ السلام اوریا کی بیوی پر عاشق ہوگئے یاحضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں کیڑے پڑگئے تھے وغیرہ ، اس قسم کی روایات جو عصمت انبیاء یامقام انبیاءکے عقیدے کے خلاف ہیں ان کو بالکل قبول نہیں کیاجائے گا۔تیسری قسم اسرائیلیا ت کی وہ ہے جن کی نہ قرآن وسنت سے تائید ہوتی ہے نہ تردید،اس قسم کی روایات کے حوالے سے سکوت کی بہترین راہ عمل ہے۔
مسلمانوں میں کعب احبار، وہب بن منبہ اور عبداللہ بن عمروبن العاص ؛ یہ وہ شخصیات ہیں جن سے اسرائیلیات کی اشاعت ہوئی۔یہ حضرات جب کوئی روایت آپ ﷺ کی طرف منسوب کیے بغیر روایت کریں تو وہ اسرائیلیات میں سے شمار ہوں گی۔
2۔۔۔شاذ لغت اسی طرح عرب کےہاں غیرمعروف سمجھے جانے والے معانی سے تفسیر بیان کرنا درست نہیں۔جدت پسندطبقہ کے ہاں یہ بات بڑی عام ہے کہ مستند تفاسیر کے مقابلے میں کسی شاذ یاغیرمعروف لغوی معنی سے تفسیر کرکے اپنے مذموم اور فاسد عزائم پر استدلال کرتے رہتے ہیں۔
3۔۔۔قرآن وسنت اور مسلمات کے خلاف تفسیر کرنا یا اہلیت نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے تفسیر کرنا۔
قرآن فہمی کے اصول
(بہت عرصہ پہلے ماہ نامہ زادالسعید کےلیے ایک مضمون فہم قرآن کے حوالے سے لکھا تھا ، موضوع کی مناسبت سے ہدیۂ قارئین کیاجارہا ہے)
رمضان اور قرآن کے درمیان دیرینہ رشتہ ہے۔ اس مہینے میں تلاوتِ قرآن میں ریکارڈ اضافہ پایاجاتا ہے۔ تراویح ،تفسیر قرآن اور فہم قرآن کی محافل سجی نظر آتی ہیں،لیکن چندسالوں سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ درس قرآن کامقدس منصب کچھ ایسے لوگ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششیں کررہے ہیں جو اس فن کے اہم اصولوں سے ناواقف ہیں یا واقف ہوتے ہوئے بھی ان کا خیال نہیں کرپاتے؛کیونکہ وہ ان اصولوں کے قائل ہی نہیں۔اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ فہم قرآن کےیہ اصول عقلی بنیادوں پر سمجھادیے جائیں۔تاکہ ان کوانہی کےاسلوب میں بات پہنچ جائے!
پہلی مثال:آپ کے پاس ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے : میں زیڈاےکمپنی کا نمائندہ ہوں۔آپ چانچ پڑتال کرتے ہیں، مکمل تسلی کرتے ہیں۔آپ کو اس کا حق بھی پہنچتا ہے کہ تسلی کریں۔ جب اطمینان ہوجاتا ہے تو آپ اسے اس کمپنی کا نمائندہ تسلیم کرلیتے ہیں ۔اس کے بعد جب وہ آپ سے بطور نمائندہ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو آپ اس کی بات کو کیا سمجھتے ہیں؟ یہی نا کہ یہ اپنی فرم کا نمائندہ ہے جو بھی ایگریمنٹ کرے گا اپنی طرف سے نہیں ،بلکہ اپنی فرم کی نمائندگی میں کرے گا۔ آپ اس کی ہر بات کو فرم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
دوسری مثال:نیوٹن اور آئن اسٹائن سائنس کی دنیا کے مردمیدان ہیں۔انہیں پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔انہوں نے محنت کی اور اپنی حیثیت منوائی۔جس کے بعدانہیں سائنس کی دنیامیں ایک مقام حاصل ہوا۔ اب تک ان کے نظریات محفوظ ہیں ، انہوں نے جو کچھ کہا لوگوں نے ان کی بات کو تسلیم کیا ۔ایک بار تسلیم کرلینے کے بعد لوگ ان سے ہر بات کی دلیل نہیں مانگتے، بلکہ آمناوصدقنا کہتے ہیں۔
بس!یہی اصول قرآن فہمی کا بھی ہے۔پہلے تو یہ سمجھیں کہ ہمارے اندر وہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالی کویا اس کے فرشتوں کو دیکھ سکیں اس لیے اللہ تبارک وتعالی نے اپنا پیغام انسانیت تک پہنچانے کے لیے خود انسانوں ہی کا انتخاب فرمایا۔ہردور میں پیغمبربھیجےاور کتابیں نازل فرمائیں۔آخری دور میں محمدﷺ کو رسول بناکر بھیجا ۔آپ کی نبوت ورسالت پر دلائل قائم فرمائے۔لوگوں نے آپ کو ہرطرح سے چانچا۔آپ ان کی ہرکسوٹی پر پورے اترے۔مکہ کےباشندوں نےآپﷺ کو بچپن سے عمرکی چالیس بہاروں تک ہزاروں بار دیکھا،پرکھا۔سینکڑوں بار آپ ﷺ سے ملاقاتیں کیں۔معاملات کیے۔ کبھی آپ کو جھوٹا نہیں پایا۔مکہ والے آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔صادق کے معنی ’’سچا‘‘ اور امین کے معنی ’’امانت دار‘‘۔ولادت سے پہلے ، ولادت کے بعد اور نبوت کی زندگی میں سینکڑوں ایسے واقعات پیش آئے جو آپ کی نبوت ورسالت کے سچے گواہ تھے۔
یہ تمام واقعات وبراہین آج تک مستند ذرائع سے تواتر کے ساتھ بحفاظت ہم تک پہنچے ہیں جنہیں دیکھنے سننے کے بعد آپ کی رسالت وپیغمبری میں ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں رہ جاتا۔ اللہ تعالی نے اپنا آخری پیغام ایسے امانت دار،سچے اور پاک دامن ہستی پر قرآن پاک کی صورت میں نازل فرمایا۔پھر جب تواتر اورمعتبر ذرائع سے جب یقین ہوگیا کہ انبیائے کرام برحق اور سچے ہوتے ہیں تو ان کی ہر بات جومعتبرطریقے سےہم تک پہنچی ہے،سچی ہوگی۔ان کی ہر ہر بات کی لاجک جاننے کی ضرورت نہیں ہوگی،جیسے نیوٹن اور آئن اسٹائن کی ہر بات کی گہرائی سے واقف ہونا ہمارے لیے ضروری نہیں۔
تیسری مثال:برطانیہ کا سفیر پاکستان میں تقریر کرتا ہے تو سفیر کی بات کو برطانیہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ برطانیہ کی نمائندگی میں وہ بات کررہا ہے۔اس کی کوئی بات سمجھ نہ آئے یا مغالطہ لگ جائے تو اس کی وضاحت نمائندے سے پوچھی جاتی ہے ۔نمائندے کی بات بھی اصل اتھارٹی کی طرح ہی معتبرسمجھی جاتی ہے۔نمائندے کو خود کہیں الجھن ہوتی ہے تو وہ وقت مانگتا ہے اور اپنے اعلی حکام سے رابطہ کرکے آپ کو جواب دیتا ہے اور جب اس کی بات کی وضاحت اور تشریح آجاتی ہے تو وہی وضاحت معتبر قرار پاتی ہے، اس کے مقابلے میں کوئی اور تشریح درست نہیں ہوتی!
اسی طرح قرآن کی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو اس کو سمجھنے کی دو صورتیں ہیں :یا تو خود اللہ تعالی سے پوچھیں۔ظاہر ہے ہمارے پاس اس کا کوئی براہ راست ذریعہ نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ اللہ کے نمائندے یعنی پیغمبرﷺ کے ذریعے سمجھیں،ہمارے پاس یہی ایک واحد راستہ ہے۔ایسے سچے پیغمبرﷺ جب اللہ تعالی کی طرف سے قرآن لے کر آئے تو اس کی نہ سمجھ آنے والے یا مغالطے میں ڈالنے والے مقامات کی درست تشریح وتعبیروہی ہوگی جو خود پیغمبرﷺ فرمائیں گے۔ کمپنی والے یا اعلی حکام سے تو غلطی بھی ہوسکتی ہے اور اپنے نمائندے کی نگرانی میں کمزوری بھی پائی جاسکتی ہے لیکن یہاں تو خود رب العزت نگران ونگہبان ہیں۔اس کے نظام میں کبھی کوئی غلطی اور کمزوری نہیں ہوسکتی۔اس لیے یہ کہنا بہت بڑی جسارت بلکہ حماقت ہے کہ قرآن کی تشریح وتعبیر کے لیے پیغمبرﷺ کی یاان کی احادیث کی کوئی بنیادی حیثیت نہیں۔
چوتھی مثال:ایک شخص آپ کا ہر وقت کا ہم نشین ہے۔ ہر وقت وہ آپ کے ساتھ رہتا ، اٹھتا بیٹھتا ہے۔ آپ کی زبان سے واقف ہے۔آپ کی ہر ادا اور عادت و اطوار کا اسے بخوبی علم ہے اور ہر وقت کا ساتھی ہونے کی وجہ سے وہ آپ کی طبیعت، مزاج اور قول و فعل کی گہرائی اور لیول سے واقف ہے۔ آپ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ آپ کے دنیا سے جانے کے بعد دو افراد آپ کے حالات زندگی سے بحث کرتے ہیں ایک وہ جو آپ کا ہمیشہ کا ہم نشین اور ہمراز اور دست راست تھا۔ دوسرا وہ جو آپ کے انتقال کے صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ اب آپ بتائیے! آپ کی طبیعت، عادات اور معمولات کو ان دونوں میں سے کون صحیح صحیح بیان کرسکتا ہے۔ آپ کے مختلف اقوال و افعال کی درست تشریح ان دونوں میں سے کون کرسکتا ہے؟ یقیناًوہ شخص جو آپ کا ہمیشہ کا ساتھ اور سفر و حضر کا رفیق رہا۔ جبکہ دوسرا شخص جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ وہ قیاس آرائیاں کرکے آپ کی زندگی کے بہت سے گوشوں کو مسخ کرڈالے گا۔
یہی حال قرآن فہمی کا ہے۔قرآن فہمی کے لیے عربی زبان سمجھنا ضروری ہے ؛کیونکہ قرآن وسنت اور قدیم اسلامی مآخذ عربی میں ہی ہیں،لیکن صرف عربی سمجھ لینا کافی نہیں جب تک اس لیول کی عربی نہ آتی ہو جو قرآن وسنت کے لیول کی ہے، ساتھ ساتھ جس ماحول میں قرآن نازل ہوا ہے اس ماحول کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ان سب کے ساتھ ہی ہم قرآن وسنت کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
الحمدللہ! یہ سب باتیں صحابہ کرام اور خیرالقرون میں موجود تھیں اس لیے دین فہمی کے لیے ان کی تشریحات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی تشریحات کے مقابلے میں نت نئی تشریحات جو جدید دور کے لوگ کریں ، چاہے وہ کتنی ہی اچھی لگیں ، معتبر قرار نہیں دی جائیں گی؛کیونکہ ان میں غلطیوں کا امکان اس میں زیادہ رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں