طلاق کے بعد اسقاط حمل کی ایک صورت

فتویٰ نمبر: 5086

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ بھائیوں سے جا کر حصہ مانگو ،حصہ نہ ملنے پر بیوی کو طلاق دے دی جبکہ بیوی دو ماہ کے حمل سے تھی۔

اب لڑکی کی ماں اور بھائی کہہ رہے ہیں کہ تم یہ حمل گرا دوتاکہ ہم تمھاری دوسری جگہ شادی کرا دیں کیونکہ آگے چل کر بچے کی وجہ سے بہت مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بچہ والی عورت سے کوئی شادی کرنے کے لیے تیار بھی نہیں ہوتا۔

لڑکی حمل گرانے کےلیے تیار نہیں ہے تو کیا والدہ اور بھائی زبردستی کر سکتے ہیں اور اگر لڑکی حمل ضائع کر دے تو اس کا گناہ لڑکی کو ہو گا یا اسکے بھائی اور والدہ کو۔

والسلام

الجواب حامدا و مصلیا

اگر بچی کے رشتہ میں اولاد ہونے کی وجہ سےمشکل ہوتی ہو تو دو ماہ کا حمل گرانا کراہت کے ساتھ جائز ہے۔

کذا فی الشامیۃ : ونقل عن الذخیرۃ لو ارادت الالقاء  قبل مضی زمن ینفخ فیہ الروح ھل یباح لھا ذالک ام لا؟  اختلفوا فیہ ، وکان الفقیہ علی بن موسی یقول انہ یکرہ ، فان الماء بعد ما وقع فی الرحم مالہ الحیاۃ فیکون لہ حکم الحیاۃ کما فی بیضۃ صید الحرم، ونحوہ  فی الظہیریۃ قال ابن وھبان : فاباحۃ الاسقاط محمولۃ علی حالۃ العذر الخ ( ج: ۳، ص: ۱۷۶، ط: سعید)

(مستفاد:ویب سائٹ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:27 صفر 1441ھ

عیسوی تاریخ:27 اکتوبر 2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں