طلاق سمجھو  تفصیلی فتویٰ

 محترم  مفتی صاحب!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! ؎اگر شوہر  اپنی بیوی سے جھگڑے کے دوران یہ الفاظ استعمال کرے  کہ”تم طلاق سمجھو“یا یہ الفاظ  استعمال کرے کہ ”تم اپنےآپ کو آزاد سمجھو“ یا یہ کہے کہ ”تم  سمجھو کہ تم فارغ ہو“تو اس صورت میں کیا بیوی  پر طلاق واقع ہوجائے گی؟ اور کیا ان الفاط سے طلاق  واقع ہونے کے لیے نیت کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟

سائل

عبداللہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون ملہم الصواب

واضح رہے  کہ ”تم طلاق سمجھو/ تم اپنے  آپ کو آزاد سمجھو/تم سمجھو کہ تم فارغ ہویاجا، تو سمجھ لے کہ میں نے تجھے طلاق دی“وغیرہ الفاظ ایسے ہیں کہ ان سے  نہ تو ہر حال میں شرعاً بیوی  پر طلا ق واقع ہوتی ہے اور نہ ہی ایسے ہیں کہ ان کو ہر حال میں لغو قرار  دے کر عدم طلاق  کا فیصلہ کیاجاسکتا ہےبلکہ  ان الفاظ  سے طلا ق واقع  ہونے یا نہ ہونے  کا مدار ان الفاظ کے استعمال کرنےوالے کی نیت،عرف  اور ان الفاظ  کے سیاق وسباق اور جس ماحول  میں وہ الفاظ  بولےگئے ہیں ،ا س پر  ہے۔ اس لیے انہی چیزوں کو  دیکھ کرہی ان الفاظ  سے وقوعِ طلاق یا عدمِ طلاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظِ ”سمجھو”اردو میں کبھی محض فرضی  کرنے کے معنی  میں استعمال ہوتاہے۔ اس صورت میں ”تم طلاق سمجھو/ تم اپنے آپ کو آزاد سمجھو/تم سمجھو کہ تم فارغ  ہویاجا، تو سمجھ لے کہ میں نے  تجھے طلاق دی“ وغیرہ الفاظ کا مطلب یہ ہوگا کہ حقیقت اور نفس الامر میں تو ایسا نہیں ہے لیکن اپنے طور پر نفس الامر کے برخلاف  یہ فرض کرلو کہ میں نے تمہیں طلاق دی/آزاد  کیا، فارغ  کیایااپنے آپ کو مطلقہ  گمان کرلو،مطلقہ  شمار کرلو،مگر تمہارے  فرض  کرنے/تمہارے  گمان کرنے یا تمہارے  سمجھنے سے کیا ہوگا؟ کچھ  بھی نہیں ہوگا،کیونکہ طلاق دینا تو شوہر کا کام ہے جبکہ میں  نے تمہیں طلاق نہیں دی/میں نے تمہیں آزاد نہیں کیا/ فارغ کیا یااپنے آپ کو مطلقہ گمان کرلو، مطلقہ  شمار کرلو،مگرتمہارے فرض کرنے/تمہارے گمان کرنے یا تمہارے سمجھنے سے کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں ، کیونکہ طلاق دینا شوہر کا کام ہے جبکہ میں نے تمہیں طلاق نہیں دی/میں نے تمہیں آزاد نہیں کیا/میں نے تمہیں فارغ نہیں کیا۔ لہذا ا س صورت میں یہ سب الفاظ  شرعاً لغو ہوں گے، ان سے شرعاً بیوی  پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اگرچہ شوہر یہ الفاظ  طلاق ہی کی نیت سے کہے۔ کلامِ فقہاء میں اس کی نظیر“دادہ انگار/کردہ انگار/احسبی انکِ مطلقہ“وغیرہ  الفاظ ہیں۔ جن کے بارے میں فقہاء کرام رحمہم اللہ  تعالیٰ  نے تصریح فرمائی ہے کہ ان الفاظ  سے باجوود نیت  طلاق کے بھی شرعاً طلاق نہیں ہوگی۔اس لیے اس  صورت میں یہ طلاق کے الفاظ ہی نہیں ، یعنی نہ یہ صریح طلاق کے الفاظ ہیں اور نہ ہی الفاظ کنایہ ہیں۔

فی البحر الرائق (۸/۵۴۹)

جبکہ کبھی لفظ”سمجھو“کے ذریعہ  اردو محاورہ  میں اس  ( یعنی لفظِ ”سمجھو“کے) سوابق ولواحق میں بیان کردہ بات  مخاطب کو ذہن  نشین کرانے اوراس پر مخاطب  کو متنبہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی  متکلم  لفظِ ”سمجھو“ کو محض فرضِ محال کے طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ اپنی طرف سے مخاطب کو  یہ باور کرانے اور لفظ ”سمجھو“کے ساتھ متصل  بات اس کے ذہن نشین  کرانے کے لیے استعمال کرتا ہے کہ میں جس طرح کہہ رہاہوں بات حقیقت  اور نفس الامرمیں بھی اسی طرح  ہے۔اس لیے  آپ اس کو نوٹ کرلیں / آپ اس پر متنبہ  ہوجائیں/آپ اس کو اپنے پلّے باندھ لیں وغیرہ۔اس صورت میں لفظِ ”سمجھو“کے ساتھ بیوی کو طلاق دینے میں شرعاً یہ تفصیل ہے کہ اگر ان الفاظ کے تلفظ کے وقت بیوی کو طلاق دینے کی  نیت ہوتو لفظِ ”سمجھو“ کے ساتھ ذکر  کردہ الفاظ بیوی پر وقوع  ِ طلاق کا حکم لگایاجائے گا۔ یعنی صریح  الفاظ کے ساتھ لفظِ”سمجھو“ کی صورت میں  طلاقِ رجعی  اور الفاظِ کنایہ کے ساتھ لفظ” سمجھو“سے طلاقِ بائن  کا حکم لگایا جائے گا۔

کلامِ فقہاء میں اس کی نظیر  طلاق کردہ گیر اور یلہ کردہ گیر ہیں یا بیوی  کے مطالبۂ طلاق پر کہے  شوہر کے الفاظ ”دادہ گیر یا بیوی  کے مطالبۂ طلاق کے جواب میں ”دادہ گیرم کردہ گیر،دادہ باد، کردہ باد“وغیرہ  الفاظ کہے اور ان الفاظ کے کہتے وقت نیتِ طلاق ہوتو شرعاً اس سےاس  کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی، یعنی  بیوی نے جس قسم کے الفاظ سے طلاق کا  مطالبہ کیا اسی قسم کی طلاق بیوی پر واقع ہوجائے گی لیکن ان الفاظ کے کہتے وقت اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فی البحر الرائق ۸/۵۳۸

وفی الفتاویٰ الھندیة (۱/۳۸۴)

وفی تبیین الحقائق (۴/۲۲۱)

وفی الفتاویٰ الھندیة (۱/۳۸۰)

وفی الخلاصة ج۲ص۹۷

مندرجہ  بالا باتوں کی تائید اکابرِ کرام کے درج  ذیل فتاویٰ سے بھی ہوتی ہے، مثلاً

فتاویٰ محمودیہ جلد۱۸ صفحہ۵۵میں شوہر کے الفاظ”جاتویہ سمجھ لے کہ میں نے تجھے طلاق دی“ کے بارے میں ہے:

”اگر زید کا یہ مطلب تھا کہ جاتو سمجھ لے کہ میں نے تجھے طلاق دی مگر تیرے  سمجھنے سے  کیا ہوتاہے میں نے طلاق نہیں دی اور زید اس پر حلف  کرلے تو زید کا قول معتبر  ہوگا اور طلاق کا حکم نہیں کیاجائےگا، ورنہ طلاق کا حکم ہوجائے گا اور قرینہ بھی یہی ہے کیونکہ ایسا کہنے کےبعد زید نے ا س سے کوئی تعلق نہیں رکھا“

امدادالاحکام جلد۲صفحہ ۴۲۸ میں ہے:۔

”اور ظاہر ہے کہ طلاق کردہ گیر اور یلہ کردہ گیر الفاظِ کنایاتِ طلاق میں سے ہیں ورنہ بعد نیت  کے بھی ان سے وقوع نہ ہوتا، مگر  بایں ہمہ  بعد طلبِ  طلاق مذاکرہ طلاق کے  بھی وقوع ِ طلاق کےلیے نیت کو  شرط قرار دیاہے وہاں مطلب یہ ہے کہ متکلم  بوقتِ  تکلم  کے ان الفاظ  سے ایقاعِ طلا ق کی نیت کرے،محض قرائن  ِ نیت کافی نہ ہوں گے ،ورنہ مذاکرۂ طلاق کے بعد جو کہ نیت کا قوی  قرینہ ہے کما صرَّحوابہ قاطبۃ نیت  کا شرط  کرنا محض  فضول ولغو ہوگا۔“۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب

احقر شاہ محمد تفضل علی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۸/شوال المکرم /۱۴۳۷ہجری

13/جولائی 2016/عیسوی

الجواب الصحیح

محمد عبدالمنان عفی عنہ

بندہ محمود اش رف غفراللہ له

۱۳/شوال المکرم /۱۴۳۷ہجری

مفتی دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

 عربی عبارت وپی ڈی ایف فائل کےلیے لنک پر کلک کریں :۔

https://bit.ly/3996ojU

اپنا تبصرہ بھیجیں