تلقن  من الخارج

تلقن من الخارج کیا ہر حال میں مفسدصلوۃ ہے ؟ مثلا اگر کوئی شخص باہر سے قبلہ کا رخ  درست  بتائے  یا کوئی  عورت دوسری عورت کو جسم کے کسی حصہ کے کھلنے کی نشاندہی  کرسکے اسے ڈھانپنے کے لیے  کہے تو کیا حکم  ہے ؟

الجواب حامداومصلیا ً

 تلقن  من الخارج  کی اصل حقیقت کیاہے اور کیا یہ ہر حال میں مفسدصلوۃ ہے یا نہیں ؟ اس بارے  میں حضرات  فقہاء کرام  اورز مانہ قریب  کے ہمارے  بعض اکابرین  رحمہم اللہ کی بعض  عربی اور اردو عبارات  دیکھنے سے اس کی درج ذیل صورتیں  سامنے آتی ہیں جن میں سے بعض  مفسد صلوۃ ہیں اور بعض نہیں  ہیں اورا سی سے تلقن  من الخارج  کی اصل حقیقت  بھی معلوم ہوجاتی ہے  ۔وہ صورتیں  درج ذیل ہیں  ۔

  • رد المختار میں  ” بحوالہ  قنیۃ “میں یہ مسئلہ مذکور ہے  کہ ” اگر کسی منفرد نمازی  کو آگے  بڑھنے  کے لیے کہا جائے اور وہ اس  کے حکم سے آگے  بڑھ جائے  یا کوئی آدمی  دو آدمیوں  کے درمیان  صف میں خالی جگہ  پر کھڑا ہو اور ساتھ والا نمازی اس کے کھڑے  ہوتے ہی   اس  کے لیے  جگہ کشادہ  کردے  تو ان  دو صورتوں میں دوسرے  کے حکم سے   آگے بڑھنے والے منفرد نمازی  کی  اوردوسرے  کے لیے جگہ کشادہ  کرنے والے نمازی  کی نماز فاسدہوجائے گی “۔

شرح قدوری میں اس کی علت  یہ بیان کی گئی ہے  کہ یہ امتثال امر غیر اللہ ہے ۔

  • صاحب الدر المختارؒ  نے ” بحوالہ قنیہ ” اس کے مخالف ایک دوسرا مسئلہ بھی نقل  کیاہے ۔وہ یہ ہے کہ ” اگر کسی نے اگلی صف سے کسی نمازی کو اپنے ساتھ  پچھلی صف میں کھڑا   کرنے کے لیے  کھینچا اور وہ نمازی  ا سکے کھینچنے سے پیچھے آگیا تو گوکہ  یہ صورت بھی تلقن  من الخارج  کی ہے  لیکن اس میں صاحب  قنیہ  نے عدم فساد کو ترجیح  دی ہے “۔

علامہ شامی ؒ  فرماتے ہیں کہ چونکہ مسئلہ نمبر   2 میں ” صاحب قنیہ ” نے اس کی تصریح  نہیں کی کہ غیر کے کھینچنے  سے پیچھے  آنے والا نمازیاس غیر  کے حکم سے پیچھے آیا  ہے یا محض  اپنی رائے  سے  یا امر  شارع سمجھ کر  ؟ اس  لیے مذکورہ دونوں   مسئلوں میں تطبیق  دینے کے لیے ضروری  ہے کہ مسئلہ نمبر 1 ( جسے مفسدصلوۃ قرار دیاگیا ہے ) کو امتشال امرغیرا للہ پر محمول کیاجائے  اور مسئلہ  نمبر 2  ( جس میں  عدم فساد کے قول کو  ترجیح  دی گئی ہے )  کو انتشال  امر شارع  پر محمول کیاجائے  ایسی  صورت میں دونوں مسئلوں میں کوئی  تعارض نہیں ہوگا ۔

  • حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ نے اپنے متون وشروح  میں نماز میں ” قراءۃ من المصحف ” کو مفسد صلوۃ ” قراردیا ہے اور اس کیوجہ منجملہ  وجوہات کے یہ بیان  کی ہے کہ یہ تعلیم وتعلم اور تلقن من الخارج  ہے ۔
  •  مسئلہ  مذکورہ  ( قراء ۃ من المصحف  ) سے  حافظ قرآن  کے لیے بشرطیکہ اس نے قرآن  ہاتھ سے  نہ اٹھایا ہو قراءۃ من المصحف بالاجماع مفسدصلوۃ نہیں ہے کیونکہ یہ تلقن  من المصحف نہیں ہے ، ہاں البتہ  یہ مصحف  سے فی الجملہ استعانت   ضرور ہے  لیکن اس  درجہ  کی استعانت  سے نماز فاسد نہیں ہوتی  ۔

اعلاء السنن  ج  5ص 61)

  • اگر کسی خارج ا ز نماز  شخص کسی امام کا لقمہ  دےا ور امام لقمہ  لے لے تو حضرات  فقہاء  کرام ؒ  نےا س کو تلقن من الخارج  قرار دے  کر امام  اورتمام مقتدیوں  کی نماز کو فاسد قراردیاہے ۔
  • اگر کسی نمازی کو دوباتوں میں سے کسی ایک کی تعیین میں تردد ہوا اور کسی خارج  از نماز شخص کے بتلانے  سے کوئی  ایک پہلو  اس کے ہاں راجح  ہوجائے  کرے تو بظاہر یہ بھی تلقن  من الخارج  ہے لیکن مفسدصلوۃ  نہیں ہے ، مثلا ً یہ کہ کسی  امام نے  نماز مغرب  میں سہواً دو رکعت  دورکعت  پڑھ کر سلام پھیرتے  ہی اس کو  شبہ ہوا کہ  شاید دورکعتیں پڑھی ہیں  مگر عدم  تیقن  کے باعث وہ کھڑ انہ ہوا۔ سلام پھیرنے کے بعد کسی مقتدی  نے بتایا کہ  دو رکعتیں  ہوئی ہیں جس سے امام  کا شبہ  راجح  ہوگیا اور فورا کھڑ اہوا اور مقتدی  بھی اس کے ساتھ  کھڑے ہوگئے  ، تیسری  رکعت کے بعد اس نے سجدہ سہو  کرکے  سلام پھیردیا ۔ حکیم الامت  حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ  نےا س  مسئلہ کے متعلق  فرمایا ہے کہ ” مذکورہ  صورت میں چونکہ امام کا شبہ  راجح ہوگیا  اور امر  شارع کے سبب وہ  کھڑا ہوا ہے اس لیے  اس کی اور سب   مقتدیوں کی نماز ہوگئی  بجز کلام کرنے والے مقتدی  کے کہ اس کی نماز  بوجہ کلام  کے فاسد ہوگئی  ۔

 ان تمام  فقہی جزئیات  میں غور کرنے سے معلوم  ہوتا ہے  کہ مسئلہ مذکور  میں تلقن  من الخارج   جو مفسدصلوٰۃ  ہے کی درج  ذیل دو صورتیں  ہیں ۔

  • ایک یہ کہ نمازی  کا  مقصود امر شارع کی پرواہ کیے بغیر خارج از نماز شخص کی بات کا امتثال ہو یہ مفسد صلوٰۃ  ہے ۔
  • دوسرے یہ کہ تلقن من الخارج  میں تعلیم وتعلم پایا جائے جیسا کہ اس کی مثال نمبر 6 تحٹ گزر چکی ہے تو چونکہ  تعلیم وتعلم   عمل کثیر اور منافی صلوۃ ہے اس لیےا یسا  تلقن  من الخارج  بھی مفسدصلوۃ  ہوگا اگرچہ  اس سے  مقصود امرشارع کا ہی امتشال  ہو اسے  حضرات فقہاء کرام ؒ  نے مفسدات صلوٰۃ کے تحت  تفصیل سے ذکر کیاہے ۔

اور پہلی صورت  کے متعلق علامہ طحطاویؒ  نے فیصلہ کن  بات ارشاد فرمائی ہے جس سے  سب فروع بھی متفق ہو جاتی ہیں ، تمام محققین  نے اسے پسند کیاہے اوروہ یہ ہے کہ

“ا گر مسئلہ مذکورہ میں کچھ تفصیل  کی جائے  تو زیادہ بہتر  ہے وہ یہ کہ اگر غیر قول  پر عمل کرنیوالے کا مقصد امتثال امر  شارع تھا تو ایسی صورت  میں اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی  اور اگر امر شارع  کی پرواہ کیے بغیر محض خارج از نماز  کی دلداری کے لیے ا س کے امر کا امتثال کیا تو ایسی صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی  “۔ ( ردا لمختار  ج 1ص 571)

اور حضرت مفتی اعظم  پاکستان  مفتی محمد شفیع صاحب ؒ  نے معارف القرآن ( ج 1ص 377) میں اس مسئلہ  پر نہایت  واضح  اور جامع کلام فرمایا ہے جس سے حضرات  فقہاٰ کرامؒ  کی تمام مختلف عبارات میں تطبیق ہوجاتی ہے  اور مسئلہ  کا  ہر پہلو نہایت واضح  ہوجاتا ہے  اور اجمالی  طور پر  تمام  فروع کا  حل  بھی معلوم ہوجاتا ہے جو کہ درج ذیل  ہے اورعام  فقہاء حنفیہ نے جو خارج  صلوٰۃ  کسی شخص کی اقتدار اوراتباع کو مفسد نماز کہاہے  جو عام متون  وشروح  حنفیہ   میں منقول  ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ نماز میں غیر اللہ کے امر کا اتباع موجب  فساد نماز ہے لیکن اگر کوئی شخص اتباع امر  الٰہی کا  کرے  مگر اس اتباع میں کوئی دوسرا شخص واسطہ  بن جائے وہ موجب فساد نہیں ۔

فقہاء نے جہاں یہ مسئلہ لکھا ہے  کہ کوئی  شخص جماعت میں شریک  ہونے کے لیے  ایسے وقت   پہنچے  کہ اگلی صف پوری  ہوچکی ہے  اب پچھلی  صف میں تنہا  رہ جاتاہے   تو ا س کو  چاہیے  کہ اگلی صف میں سے کسی آدمی  کو پیچھے کھینچ کر اپنے ساتھ ملالے اس میں بھی  یہی سوال آتا ہے  کہ اس کے کہنے سے  جو پیچھے  آجائےگا وہ نماز  میں اتباع امر غیر اللہ کا کرے گا اس لیے  اس کی نماز  فاسد ہوجان چاہیے  لیکن الدر المختار  ” باب الامامۃ ‘ میں  اس مسئلہ کے متعلق  تحریر فرمایا ” ثم  نقل تصحیح  عدم الفساد فی مسئلۃ من جذب  من الصف فتاخرفھل ثم فرق فلیحرر ، اس پر علامہ طحطاوی   ؒ نے تحریر  فرمایا : لانہ امتثل امر اللہ   یعنی   اس صورت میں نماز  فاسد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ در حقیقت  اس شخص آنے والے کے حکم  کا اتباع نہیں کیا بلکہ امرالٰہی  کا اتباع کیا ہے جو  رسول اللہ  ﷺ کے ذریعے  اس کو پہنچا ہے کہ جب ایسی  صورت  پیش آئے تو اگلی صف  والے کوپیچھے آجانا چاہیے ۔

اسی طرح شنبلالی ؒ  نے شرح  وہبانیہ میں اس مسئلہ کا ذکر کرکے پہلے فساد نماز کاقول کیا پھر اس  کی تردید کی ،اس  کے الفاظ  یہ ہیں ” اذا قیل  لمصل تقدم فتقدم ۔۔۔الی ۔۔۔فسدت  صلوۃ لانہ امتثل امر غیر اللہ فی الصلوۃ لان امتثالہ انما ھو لامر رسول اللہ ﷺ فلا یضر ۔۔۔

ان تمام  روایات  سے ثابت  ہوا کہ اگر کوئی  نمازی ایسے شخص کی آواز  پرعمل کرے جو اس کے ساتھ نماز میں شریک نہیں تو ا س کی دو صورتیں  ہیں ، ایک یہ کہ خود  اس شخص کی دلداری اور اتباع  مقصود ہو یہ تو مفسد نماز  ہے س لیکن اگر اس نے کوئی حکم  شرعی بتلایا اور اس کا اتباع نمازی نے کرلیا تو وہ حقیقت  امر الٰہی  کا اتباع ہے اس لیے مفسد نماز نہیں ہوگا اسی لیے طحطاوی ؒ  نے  فیصلہ یہی کیا ہے   کہ   ”  اقول : لو قیل بالتفصیل  بین کونہ  امتثل امر الشارع فلا تفسد وبین کونہ امتثل امر الداخل مراعاۃ لخاطرہ من غیر نظر الامرالشارع فتفسد لکان حسنا ً ( طحطاوی  علی الدرج 1 ص 246)

اسی کے علاوہ حضرت مفتی  صاحب ؒ  نےا پنے رسالہ ” آلات جدیدہ   کے  شرعی احکام  ” ( ص 61 تا 64)  میں بھی اس پر کلام کیاہے  ، اور امدادالفتاویٰ  ( ج 1ص  340، 355،356 )  “امدادالاحکام ” ( ج 1ص 555،561) اور ” فتاویٰ   دارالعلوم  دیوبند ” ( ج 4ص 33۔55 ) میں  بھی  “التلقین  من الخارج  ” سے متعلق کچھ سوالات  وجوابات ہیں ، ان سب  کی  تفصیل  جواب کے آخر  میں منسلکہ  اوراق  میں ملاحظہ فرمائیں ۔

مذکورہ  بالا تفصیل  کے بعد اصل سوال  کا جواب یہ ہے کہ  اگر نماز پڑھنے  والی عورت نے شریعت  کے حکم کا خیال کیے بغیر نشاندہی  کرنیوالی  عورت کے حکم ہی کا اتباع  کرتے ہوئے  کپڑادرست کیا  تو نماز  فاسدہوگئی  اور اگراس کے امر کا اتباع مقصود  نہیں تھا بلکہ  عورت کی نشاندہی  کے بعد ا س نے  شریعت  کا حکم سمجھ کرکپڑا  درست  کیا جیسا کہ ظاہر یہی ہے تو اس کی نماز درست ہے  ، فاسد نہیں ہوگی البتہ  ایسی صورت میں  بہتر یہ ہے کہ مذکورہ  عورت نشاندہی کرنیوالی  عورت  کی بات فورا  نہ مانے  بلکہ قدرے  توقف کے بعد اپنی رائے سے کپڑ ادرست  کرے تاکہ اس کی نماز ہر طرح  کے فساد سے محفوظ  رہے  اور یہی تفصیل باہر سے قبلہ کا درست  رخ بتانیوالے کے قول  پرعمل کرنیوالے کے بارے میں ہے۔

وفی الدر المختار : ( ج 1 ص 622)

وفیہ ایضاً ( ج ۔ 1 ص 571)

وفی البحر الرائق ( ج 2ص 2۔6 ۔ 10)

 وفی اعلاء السنن ( ج 5ص 61)

 دارالافتاء دارالعلوم کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں