طالبہ کےلیے استاذ یا شیخ کا جھوٹا پانی پینےکاحکم

سوال : استاذ یا شیخ کا جھوٹا پیناطالبہ یا مریدنی کے لیے کیسا ہے؟

جواب :واضح رہے کہ انسان( مرد، عورت ) کا جھوٹا بلا کراہت پاک ہے،البتہ جہاں فتنے کا اندیشہ ہو یا دیگر مفاسد پائے جائیں تو پھر وہاں مکروہ ہوگا۔

مذکورہ صورت میں چونکہ طالبہ اور مریدنی اپنے استاذ یا شیخ کے لیے غیر محرم اور اجنبی ہیں اور جھوٹا پینے سے فتنے کا اندیشہ بھی ہے، لہذا طالبہ اور مریدنی کے لیے اپنے استاذ یا شیخ کا جھوٹا پینا مکروہ ہے، البتہ جہاں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو بلکہ حصول برکت مقصد ہو تو جائز ہوگا۔

=======================

حوالہ جات :

1 : (فسؤر آدمی مطلقا ) ولو جنبا او کافرا اوامرأۃ——–طاہرا

نعم یکرہ سؤرھا للرجال کعکسہ للاستلذاذ و استعمال ریق الغیر، وھو لا یجوز ۰

( تنویر الابصار مع الدر االمختار : 1/505 )

2 : ( نعم یکرہ سؤرھا ) ای فی الشرب لا فی الطھارۃ ۰ بحر قال الرملی : ویجب تقیدہ بغیرہ الزوجۃ والمحارم-

( ردالمحتار : 1/505 )

3 : ( سؤر الآدمی والفرس وما یؤکل لحمہ طاھر ) اما الآدمی فلأن لعابہ متولد من لحمہ طاھر وانما لا یوکل للکراھۃ، ولا فرق بین الجنب والطاھر والحائض والنفساء والصغیر والکبیر والمسلم والکافر والذکر والانثیٰ، کذا ذکر الزیلعی رحمہ اللہ: یعنی ان الکل طاھر طھور من غیر کراھۃ وفیہ نظر، فقد صرح فی المجتبى من باب الحظر والاباحۃ انہ یکرہ سؤر المرأۃ للرجال وسؤرہ لھا ولھذا لم یذکر الذکر والانثیٰ فی کثیر من الکتب لکن قد قال : الکراھۃ المذکورۃ انما ھو فی الشرب لا فی الطھارۃ- ( البحر الرائق : 1 /222 )

فقط واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں