تقسیم میراث

سوال:محترم جناب مفتیان کرام!

السلام عليكم مفتیان کرام آپ سے سوال ہے اس کا جواب جلد عنایت فرمائیں کہ ایک شخص ہے اور وہ فوت ہوگیا اس کی 3 بیٹیاں اور 4 بیٹے ہیں اس نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میرا آدھا گھر میرے دو بڑے بیٹوں کا ہے اور باقی آدھا 3 لڑکیوں اور دو لڑکوں کا ہے لیکن انھوں نے صرف کہا تھا اور نام بھی نہیں کیا اور نہ کوئی وصیت کی اب چونکہ وہ شخص فوت گیا اور گھر وارثوں کا ہوگیا اب سوال ہے کہ ان کے بیٹیا ں اور بیٹے کہتے ہیں کہ یہ پورا گھر وراثت کا ہے والد صاحب نے صرف کہا تھا کیا نہیں تھا اور والد صاحب کو بھی اپنے پورے مال میں سے دو تہائی کا حق حاصل تھا اگر وہ کرتے بھی تو نہ ہوتا کیونکہ شرعی طور پر کسی کو بھی اپنے مال میں سے صرف دو تہائی پر حق حاصل ہے اس لئے ان کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا اور ہمارا پورا گھر ہم سات بہن اور بھائیوں کی ملکیت ہے اور ہم اس کو شرعی طور پر تقسیم کرینگے جبکہ بڑے بھائی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ والد صاحب نے کہا تھا براے مہربانی اس وراثت کی تقسیم شرعی طور پر بتا دیں ذرا جلدی بتادیں بڑی نوازش ہوگی نیز مرحوم کی بیوی بھی فوت ہوگئی ہیں .

تنقیح۔ مرحوم کی بیوہ کی وفات کب ہوئی؟ مرحوم سے پہلے یا بعد میں؟

جواب: مرحوم کی بیوه کی وفات مرحوم کی دفات کے کئی سال بعد ہوئی تھی .

تنقیح : مرحوم کے والدین اور مرحوم کی بیوہ کے والدین حیات ہیں یا نہیں؟

جواب : دونوں ہی کے والدین ان کی زندگی ہی میں کافی عرصے پہلے وفات پاچکے ہیں .

الجواب باسم ملهم الصواب

مذکورہ صورت میں اگر مرحوم نے صرف یہ کہا تھا کہ آدھا گھر میرے دونوں بیٹوں کا ہے،لیکن قبضہ نہیں دیا تھا تو ھبہ مکمل نہیں ہوا۔ گھر بدستور میت کے ترکہ میں ہی باقی ہے جو تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ مرحوم نے انتقال کے وقت مذکورہ مکان سمیت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔

1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائے.

3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4️⃣اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس كے 11 برابر حصے کیے جائیں گے۔

🔵 جس میں سے :

🔹فی بیٹی کو 1 اور

🔹فی بیٹے کو 2

حصے ملیں گے۔

🔵فی صد کے لحاظ سے:

🔹فی بیٹی %9.09

🔹فی بیٹے کو %18.18

دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1) “ يوصيكم الله في اولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين “۔ (سورة النساء،11)

2)”ولا لوارثہ إلا بإجازۃ ورثتہ لقولہ علیہ السلام: لاوصیۃ لوارث۔ (شامی، کتاب الوصایا، کراچی,655/6)

3) وتتم الہبۃ بالقبض الکامل۔ (تنویر الأبصار مع الدر المختار،دار الفکر بیروت، 493/8))

فقط

🔸و اللہ خیر الوارثین🔸

قمری تاریخ: 6 ربیع الاول 1443ھ

عیسوی تاریخ: 13 اکتوبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں