تراويح كی رکعتوں کی تعداد

تراويح كی رکعتوں کی تعداد

تراويح كی رکعتوں کی تعداد كے حوالےسے روايات میں تین عددسامنے آتے ہیں:

1۔ وترکوملاکرکُل 23رکعتیں پڑھی جاتی تھیں۔یعنی 20 رکعت تراویح اور تین وتر۔موطاءامام مالک اورکئی کتب حدیث میں اس طرح کی روایات موجود ہیں۔

طبرانی، مجمع الزوائد،ا بن ابی شیبہ اور بیہقی کی ایک روایت جوسند کےلحاظ سے کمزور سہی لیکن امت نے ہردورمیں اسےقبول کیاہے،اس روایت میں صراحت ہےکہ آپﷺ سے بیس رکعات تراویح پڑھی ہے۔

2۔وترسمیت 11رکعتیں۔یعنی 8 رکعت تراویح اور تین رکعت وتر۔یہ روایت مؤطاء اورصحیح ابن خزیمہ وغیرہ میں موجود ہے۔

3۔مدینہ کےاکثراہل علم کا عمل وترسمیت 41رکعت پر رہاہے۔کمافی الترمذی

فقہ ودرایت اورصحیح قول

1۔زیادہ قرین قیاس یہ ہےکہ تراویح کی رکعات 20 ہوں؛کیونکہ یہ بات سب کومعلوم ہے کہ رمضان المبارک میں آپ ﷺعام دنوں کی بنسبت زیادہ عبادت کیاکرتے تھے ،توجب عام دنوں میں قیام اللیل کی رکعتیں آٹھ یادس ہوتی تھیں تورمضان المبارک میں لازماًدگنی ہوں گی۔

2۔اسی وجہ سےآپﷺکےبعدصحابہ کرام اورآج تک تمام امت کااجماع بیس رکعت پرہی ہے۔تواتر،اجماع اورتعامل خودایک بہت بڑی شرعی دلیل ہے۔

3۔اگرکوئی یہ کہے کہ 8رکعت تراویح کی روایت بھی موجود ہے تواس کاجواب اوپر گزرچکااور آگے بھی آرہاہے کہ جب ایک روایت کوتواتراوراجماع سے تقویت مل گئی تو وہ دوسری روایت کےمقابلے میں راجح ہوگئی اوردوسری روایت اس کے مقابلے میں مرجوح اورکمزور،بلکہ منسوخ ہوگئی۔

اس لیےصدیوں بعداس اجماع اوراتفاق رائےکوتوڑ کرآٹھ رکعت پر لانے کی کوشش کرنایااس تحریک کاحصہ بننا نادانی اورمحض ظاہرپرستی ہےاورعقل ودرایت کےاصولوں کےخلاف ہے۔

شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی کافتوی

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے جانشین شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی فرماتے ہیں:

” اس خیال سے کہ تراویح اور تہجد یہ دونوں نماز رات میں پڑھی جاتی ہے صحابہ کرام پہلے آٹھ رکعت تراویح پڑھتے تھےتوپھر جب صحابہ کرام کے نزدیک یقینا ثابت ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ ماہ رمضان شریف میں اس سے زیادہ نماز پڑھتے تھے یعنی تراویح کی نماز آنحضرتﷺ بیس رکعت پڑھتے تھے تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت ﷺکا یہی فعل اختیار کیا کہ تراویح کی نماز بیس رکعت پڑھا کرتے تھے ۔اور تراویح کی بیس رکعت ہونے پر صحابہ کا اجماع ثابت ہے تو یہ امر بھی ضروریات دین سے ہے کہ یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ تراویح کی نماز بیس رکعت ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے۔اور اسی وجہ سے فقہاء کرام اس بارے میں نہایت تاکید کرتے ہیں کہ تراویح کی نماز بیس رکعت پڑھنی چاہیے۔ اور اکثر ایسے امور شرعیہ ہیں کہ ان کے بارے میں جس قدر تاکید شرعاً ہے وہ پہلے معلوم نہ تھی،وہ تاکید اجماع سے ثابت ہے اور اجماع بھی شرعی حجت ہے ۔ چنانچہ اجماع کا منکر کافر ہے ۔ علی الخصوص جس امر پر اجماع ہو اور وہ شعار اہل حق کا ہوجائے اور وہ امر اس کے لیے ما بہ الامتیاز ہو جائے کہ جو شخص اس اجماع کے موافق عمل کرے وہ اہل حق سے ہےاور جو شخص اس کے خلاف عمل کرے وہ بدعتی ہے۔

تو اس اجماع پر عمل کرنے کے بارے میں نہایت تاکید ہے ۔ چنانچہ سنن رواتب پنج وقتی کی تاکید بھی جس قدر زمانہ صحابہ میں تھی اس سے زیادہ تاکید روایات سے بعد زمانہ صحابہ کے ثابت ہوئی ۔ اور یہ امر اس پر ظاہر ہے جس نے اس بارے میں روایات کی جستجو کی اور بیس رکعت تراویح کی نماز ہونے کے لیے اور بھی وجوہ ترجیح ہیں۔ منجملہ اس کے ایک وجہ یہ ہے کہ رمضان کے سوا دوسرے مہینہ میں صلوۃ اللیل کہ اس سے مراد تہجد مع وتر ہے گیارہ رکعت ثابت ہیں تو رمضان کہ زیادہ عبادت کرنے کا مہینہ ہے گویا وہ نماز دو چند کر دی گئی۔”(فتاوی عزیزی:ص482)

اپنا تبصرہ بھیجیں