ترکہ کی تقسیم کا حکم

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۱۱﴾

سوال :-  میرے ایک قریبی رشتہ دار کو ورثہ کی تقسیم کی مد میں آپ سے جواب درکار ہے ۔اس رشتہ دار کے ماں باپ کا انتقال ہو چکا ہے ۔اس کی دو بہنیں ہیں اور تین بھائی ہیں ۔ان کا ایک مکان ہے جس کی مالیت 15 لاکھ ہے جس پر بجلی کے واجبات تقریبا ایک لاکھ ہے لہذا مکان کی مالیت اب 14 لاکھ روپے ہے۔ براہ مہربانی بتائیں کہ اس کی تقسیم کیسے ہوگی؟ 

جواب :- اس رشتے دار کے مرحوم والدین نے اپنے انتقال کے وقت جو بھی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد ساز وسامان اپنے ملکیت میں چھوڑا تھا وہ ان کا ترکہ ہے۔ترکہ کا حکم یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے مرحومین کی تجہیز و تکفین کی جائے ۔اگر کسی نے یہ کسی اپنی طرف سے  تجہیز و تکفین کردی ہو تو ان کے اخراجات ترکہ میں سے نکالنے کی ضرورت نہیں ۔اس کے بعد  اس سے مرحوم کا قرض ادا کیا جائے پھر جو بچ جائے اس کے ایک تہائی سے ان کی جائز وصیت پوری کی جائے ۔اس کے بعد جو بچ جائے وہ ان کے ورثاء میں قانون میراث کے مطابق تقسیم ہوگا۔

         صورت مسئولہ میں اگر مرحوم والدین کے انتقال کے وقت ان کے والدین  یعنی آپ کے دادا دادی اور نانا نانی کا انتقال ہوچکا تھا اور ان کے ورثاء میں سے صرف 4 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہی زندہ  تھیں تو  بقیہ ترکہ کے کل دس (10) برابر حصے ہوں گےجن میں سے ہر  بیٹے کو دو،دو (2) حصے ،اور ہر بیٹی  کو(1) ایک ،ایک حصہ ملے گا۔

رقم کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ چودہ لاکھ میں سے ہر بیٹے کو دو لاکھ اسی ہزار ،اور ہر بیٹی کو ایک لاکھ چالیس ہزار دے دیے جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقط والله خیر الوارثین

دارالافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں