یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں ناز ل ہوئی تھی بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کروایا تھا کہ بنی اسرائیل کے لوگ جو فلسطین کے باشندے تھے مصر میں جاکر کیوں آباد ہوئے ان لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کے پاس چونکہ بنو اسرائیل کی تاریخ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اس لئے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے اوراس طرح آپ کے خلاف یہ پرپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ (معاذاللہ)سچے نبی نہیں ہیں اس سوال کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ پوری سورۂ یوسف نازل فرمادی جس میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے
* دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب علیہ السلام تھے انہی کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا ان کے بارہ صاحبزادے تھے انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے اس سورت میں بتایاگیا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں حضرت یوسف علیہ السلام اورانکے بھائی بنیامین بھی شامل تھے ان دونوں کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کرکے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک کنویں میں ڈال دیا جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھاکر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے لیکن اُس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے اُس سردار کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھجوادیا اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا اورانہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا اور بعد میں حکومت کے سارےاختیارات انہی کو سونپ دئے اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوالیا اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔
سورۂ یوسف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا پورا واقعہ ایک ہی تسلسل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور تقریباً پوری سورت اسی کے لئے وقف ہے ،اوریہ واقعہ کسی اور سورت میں نہیں آیا،ا س واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اللہ تعالی نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرمادی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے یہ بات ان پر بھی واضح تھی کہ اس واقعے کا علم ہونے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا لہذا یہ تفصیل آپ کو وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھاان کے پیش نظر اس واقعے میں آپ کے لئے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے لیکن آخر کار اللہ تعالی نے انہی کو عزت شوکت او ر سربلندی عطا فرمائی او رجن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایاتھا ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑرہی ہیں لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے اور حق غالب ہوکر رہے گا اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لئے بہت سے سبق ہیں اور شاید اسی لئے اللہ تعالی نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔