تصوف وسلوك

سوال :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مردوں کی طرح کیا عورت کے ہاتھ پر بھی بیعت کی جا سکتی ہے؟
اگر عورت کا عورت سے بیعت ہونا ٹھیک ہے تو کیا پھر بھی اجازت چاہیے ہو گی؟
*بیعت کی کیا شرائط ہیں اور عورت کے لیے اجازت کا کیا حکم ہو گا؟

تنقيح-
”عورت کے لیے اجازت کا کیا حکم ہے؟”اس جملے سے کیا مراد ہے؟اجازت بیعت یا کچھ اور ؟

جواب۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عورت کے لیے اپنے محرم سے بیعت کی اجازت لینے کا کیا حکم ہو گا، اگر عورت کا عورت سے بیعت ہونا ٹھیک ہے تو کیا پھر بھی اجازت چاہیے ہو گی؟

الجواب باسم ملھم الصواب

1۔عورت کے ہاتھ پر مرد یا عورت بیعت نہیں کرسکتےصرف وظیفہ کی رہنمائی کر سکتی ہے۔

2۔اگر عورت كا محرم والد يا شوہر بیعت کرنے سے منع کریں تب بھی عورت کو بیعت نہیں کرنی چاہیے۔

3:بیعت کی شرائط یہ ہیں:
عالم ہو شریعت کا پابند ہو۔
صحیح عقیدہ سنی ہو۔
کمائی کا ذریعہ نہ بنائے۔
کسی نیک بزرگ سے وہ بیعت ہو۔
اکثر لوگ اچھا پیر سمجھتے ہوں۔
اس پیر میں یہ بات ہو کہ دین کی نصیحت کرنے میں مریدوں کا لحاظ ملاحظہ نہ کرتا ہو، بے جا بات سے روک دیتا ہو۔

================
حوالہ جات :

1۔”فلاتخرج إلا لحق لها أو عليها أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلةً أو غاسلةً لا فيما عدا ذلك۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 145)

2۔سوال: مسئلہ عورت نیک خصلت پابند شریعت واقف طریقت اپنے ہاتھ پر عورتوں کو اور مردوں کو بیعت کرنا شروع کر دے تو ازروئے تصوف و شریعت کے درست ہے یا منع فقط؟
جواب: اخذ بیعت اہل تصوف کے نزدیک عورت کو درست نہیں مگر ہاں کسی کو شغل وظیفہ بتائیں جائز ہے۔۔۔۔۔۔(فتاوی رشیدیہ عورت کا بیعت لینا) ۲۳۹ سوال۔ص 194)

3۔ سوال۔ بیعت ہونے سے یعنی کسی پیر کے مرید ہونے سے مراد اصلی کیا ہے۔اور بغیر ہوئے واصل الی اللہ ہونا نا ممکن ہے یا نہیں؟
جواب: مراد بیعت سے تحصیل اخلاص اور نور اسلام کا تجلیہ ہے اور یہ بدون شیخ کے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اکثر یہی ہے کہ کسی کے توسل کی ضرورت ہے۔(فتاوی رشیدیہ بیعت کی حقیقت﴾ سوال.248 , ص199)

4۔ایک یہ کہ وہ پیر دین کا مسئلہ جانتا ہو، شرع سے ناواقف نہ ہو۔
دوسرے یہ کہ اس میں کوئی بات خلافِ شرع نہ ہو، جو عقیدے تم نے اس کتاب کے پہلے حصہ میں پڑھے ہیں ویسے اس کے عقیدے ہوں، جو جو مسئلے اور دل سنوارنے کے طریقے تم نے اس کتاب میں پڑھے ہیں، کوئی بات اس میں ان کے خلاف نہ ہو۔
تیسرے کمانے کھانے کے لیے پیری مریدی نہ کرتا ہو۔
چوتھے کسی ایسے بزرگ کا مرید ہو جس کو اکثر اچھے لوگ بزرگ سمجھتے ہوں۔
*پانچویں اس پیر کو بھی اچھے لوگ اچھا کہتے ہوں۔
*چھٹے اس کی تعلیم میں یہ اثر ہو کہ دین کی محبت اور شوق پیدا ہوجائے، یہ بات اس کے اور مریدوں کا حال دیکھنے سے معلوم ہوجائے گی، اگر دس مریدوں میں پانچ چھ مرید بھی اچھے ہوں تو سمجھو کہ یہ پیر تاثیر والا ہے، اور ایک آدھ مرید کے بُرا ہونے سے شبہ مت کرو۔ اور تم نے جو سنا ہوگا کہ بزرگوں میں تاثیر ہوتی ہے وہ تاثیر یہی ہے۔ اور دوسری تاثیروں کو مت دیکھنا کہ وہ جو کچھ کہہ دیتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے، وہ ایک چھو کردیتے ہیں تو بیماری جاتی رہتی ہے، وہ جس کام کے لیے تعویذ دیتے ہیں وہ کام مرضی کے موافق ہوجاتا ہے، وہ ایسی توجہ دیتے ہیں کہ آدمی لوٹ پوٹ ہوجاتا ہے۔ ان تاثیروں سے کبھی دھوکا مت کھانا۔
*ساتویں اس پیر میں یہ بات ہو کہ دین کی نصیحت کرنے میں مریدوں کا لحاظ ملاحظہ نہ کرتا ہو، بے جا بات سے روک دیتا ہو۔
(ماخوذ از:بہشتی زیور حصہ ہفتم، ص:377، 378، )
واللہ اعلم بالصواب۔

2 رجب 1444
26 جنوری 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں