تین طلاق کے حوالے سے طفیل ھاشمی صاحب کے اٹھائے ہوئے نکات پر تبصرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کے حوالےسے جناب طفیل ہاشمی کی مختلف تحریرات نظر سے گذریں جن میں انتہائی شد ومد کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ تین طلاقوں کے وقوع کا جو اتفاقی فیصلہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہواتھا یہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک ہنگامی فیصلہ تھا اور اس فیصلے کی وجوہات اور بنیادیں اب باقی نہیں رہی ہیں، لہذا قرآن کے مطابق اس مسئلہ کا فیصلہ ہونا چاہئے او روہ یہ کہ جو طلاق غیرشرعی طریقے پر دی گئی ہوں (جس میں ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی شامل ہیں ) ان کو ایک قرار دیا جائے۔ محترم کے اٹھائے ہوئے مختلف نکات 9 کے قریب ہیں ، ذیل میں ان پر نمبر وار تبصرہ پیش خدمت ہے ،اس تحریر میں ہاشمی صاحب کے نکات کو استدلال اور بندہ کے جواب کو تبصرہ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے:۔ 

استدلال: (1)

یکبارگی تین ق دینا قرآن کے حکم کی خلاف ورزی ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطور سزا اس کا نفاذ فرمایا ، کیونکہ عرب میں طلاق کے نتیجے میں نقصان مرد کا زیادہ ہوتا تھا ،اسے لاکھوں کا مہر دینا پڑتا او ر دوسری شادی کے لئے الگ اخراجات کرنے پڑتے ، جبکہ عورت کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا تھا اس لئے کہ اسے بآسانی دوسری جگہ نکاح کےمواقع میسر رہتے تھے ۔

تبصرہ:

اس استدلال میں کئی سقم پائے جاتے ہیں :

(الف)یہ بات درست ہے کہ ایک ہی مجلس میں یا ایک ہی لفظ سے تین طلاق دینا قرآن کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے اور ایک گناہ کاکام ہے ،لیکن کیا اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایسی طلاق واقع نہ ہوگی؟ ،ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے ، خود قرآن کریم ہی سے یہ بات ثابت ہے کہ جو شخص یکبارگی تین طلاقیں دینے کی حماقت کا ارتکاب کرے گا ، گنہگار ہونے کے ساتھ اسے اس کی دی ہوئی طلاق واقع ہونے کی صورت میں اس حماقت کے نتائج بھی برداشت کرنے ہوں گے، قرآن کا ارشاد ہے:

{ یَأَیُّہَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآء فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ } إلی قولہ تعالیٰ { وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اﷲِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ‘ } اس آیت میں پہلے طلاق دینے کا صحیح طریقہ بیان ہوا ہے کہ ہر طہر میں ایک ہی طلاق دی جائے تاکہ اگر طلاق دینے کے بعد ندامت ہو تو رجوع کا امکان باقی رہے، مسنون طریقہ ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص حدود اللہ سے تجاوز کرے یعنی تین طلاق ایک ہی دفعہ دے دے تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا کیونکہ تین طلاق دینے کے بعد اگر اسے اپنے اس فعل (طلاق) پر ندامت ہو ئی تو رجوع کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا اور یہ (تین طلاق دینا)اپنے اوپر ظلم جب ہوگا جبکہ تین طلاق تین ہی واقع ہوں، اس لئے کہ اگر تین طلاق ایک ہی طلاق کی صورت میں واقع ہوں، تو اس میں اپنے اوپر ظلم کی کیا بات ہے؟کیونکہ اس کو رجوع کرنے کا حق تواب بھی باقی ہے، نیز اس کے بعد اللہ جل جلالہ‘ نے فرمایا: { وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا } کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر مسنون طریقے پر طلاق دے دے تو اس کے لئے آسانی ہوگی یعنی ندامت کی صورت میں رجوع کر سکے گا، اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص غیر مسنون طریقے سے تین ہی طلاق دے دے تو اس کے لئے ’’ مخرج‘‘ اور حل کا کوئی راستہ نہیں یعنی عورت مغلظہ ہو جائے گی۔ اس آیت کا درجِ بالا مفہوم اور تفسیر مشہور شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نےجمہور کے حوالے سے بیان فرمائی ہے :

حیث قال : ’’ واحتج الجمہور بقولہ تعالیٰ : { وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اﷲِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ‘ } قالوا : معناہ أن المطلق قد یحدث لہ ندم فلا یمکنہ تدارکہ ؛ لوقوع البینونۃ ، فلو کانت الثلاث لم تقع ، لم یقع طلاقہ ہذا إلا رجعیا فلا یندم ( نووي علی مسلم : ۱/۴۷۸ )

اور اس تفسیر کی تائید امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (جن سے تین طلاق کے ایک ہونے کی روایت منقول ہے )کے فتویٰ سے بھی ہوتی ہے کہ جب ایک شخص نے آ کر کہا کہ میں نے تین طلاق دی ہیں، اس کا کوئی حل تلاش کریں، تو انہوں نے فرمایا کہ: ’’ إنک لم تتق اﷲ ، فلا أجدلک مخرجا، عصیت ربک، وبأنت منک امرأتک ‘‘ یعنی تم نے اللہ کا خوف نہیں کیا اور تین طلاق دے کر نادم ہو گئے تو اب آپ کے لئے کوئی راستہ نہیں اور بیوی آپ سے جدا ہو گئی ہے۔ ( ابو داؤد : ۱/۲۹۹)

اس بناء پر اس بات پر تقریبا تمام فقہاء کرام اور محدثین کا اجماع ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں دینا اگر چہ گناہ کا کام ہے، لیکن اس کے باوجود واقع ہوں گی اور اس کے اور بھی بہت سارے نظائر ہیں ، مثلا ظہار کو قرآن کے ’’منکرا من القول وزورا ‘‘بھی کہا اور اس کے نتائج بھی بیان فرمائے ، حالت حیض میں طلاق دینا بھی خلاف شریعت ہے لیکن حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کی صحیح روایت کی رو سے اس طرح کی طلاق واقع و مؤثر ہوتی ہے ۔ خود بلاضرورت طلاق دینا بھی گناہ کاکام ہے لیکن بلاضرورت طلاق دینے کے غیرمؤثر ہونے کی بات کسی بھی فقیہ نے نہیں کی۔

(ب) مذکورہ بالا تفصیل سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ تین طلاقوں کا زجرا واقع ہونا خود قرآن کا فیصلہ اور حکم ہے تو اس کو حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہوا (کہ انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر وقتی ضرورت کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا )اس سلسلے میں جو درست بات ہے وہ یہ کہ یہ قرآن کا فیصلہ تھا اور قرآن کے احکام چونکہ اُس زمانے کے ساتھ خاص نہیں ،لہذا قیامت تک کے لئے قرآن کا یہ فیصلہ ہے او رجب اس کا تعلق کسی خاص زمانے کے ساتھ جوڑنا غلط ہوا تو اس پر یہ تفریع کرنا بھی غلط ہے کہ آج کے زمانے میں اس حکم میں تبدیلی ہونی چاہئے ، ایسا کہنا اس بات کے مترادف ہے کہ قرآن ( معاذا للہ ) صحابہ کے زمانے کے حالات کے مطابق اترا تھا ، لہذا اب قرآن پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ 

صحیح بات یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ کے اس فیصلے میں نہ ان کی ماضی سے مخالفت تھی نہ ہی یہ فیصلہ وقتی ضرورت کے تحت تھا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارک سے بھی تین طلاقوں کے واقع ہونے کے فیصلے موجود تھے (جن کا مختصر تذکرہ آرہا ہے )اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی یہی فیصلے رائج تھے ، اس معاملے میں بحث کا دروازہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت سے کھلا ہے ، لہذا یہ معاملہ احادیث کی روسے ہی حل ہونا ضروری ہے ، ہاشمی صاحب کا یہ جملہ انتہائی بے محل اور خطرناک ہے کہ یہ مسئلہ روایات سے حل نہیں ہوگا ( یعنی اس مسئلہ سے متعلق ساری روایات کو نظر انداز کرنا چاہئے ) بلکہ قرآن سے حل ہوگا ، اوپر یہ واضح ہوا کہ قرآن کی روسے تو طلاق ثلاثہ کا واقع ہونا ہی ثابت ہے ، حضرت ابن عباس کی روایت سے ہی دوسری رائے شروع ہوئی وہ بھی زمانہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے زمانے میں نہیں ، بلکہ آٹھویں صدی ہجری میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائےسے شروع ہوتی ، آٹھویں صدی ہجری تک ہزاروں صحابہ ، مجتہدین ، تابعین ، ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یکبارگی تین طلاقیں واقع ہوجا تی ہیں ، البتہ روافض اور معتزلہ کا اس مسئلہ میں اہل سنت سے رائے مختلف تھی، لیکن ظاہر ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے اس مسئلے کی اجماعی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ 

عن عائشۃ رضي اﷲ تعالی عنہا : ’’ أن رجلا طلق امرأتہ ثلاثا ، فتزوجت ، فطلق ، فسئل النبي صلی اﷲ علیہ وسلم : أتحل للأول ؟ قال : لا حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الأول ۔‘‘ ( الصحیح للبخاري : ۲/۷۹۱ )

قال الحافظ في الفتح : ’’ فالتمسک بظاہر قولہ طلقہا ثلاثا ، فإنہ ظاہر في کونہا مجموعۃ ۔‘‘ ( ۹/۳۰۱ ) ومثلہ في عمدۃ القاري وإرشاد الساري ۔

اس حدیث میں یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں ، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کیا پھر اس نے صحبت کرنے سے پہلے طلاق دے دی تو اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا گیا کہ اب یہ عورت پہلے شوہر کے لئے صرف نکاح کرنے سے حلال ہو جائے گی تو آپ نے فرمایا نہیں، جب تک یہ عورت دوسرے شوہر کے ساتھ صحبت اور ہمبستری نہ کرے، پہلے کے لئے حلال نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابن حجر اور علامہ عینی رحمہما اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں ظاہر یہی ہے کہ اس شخص نے اکٹھی تین طلاق دی تھیں اور اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایا۔

۲۔ قال لیث عن نافع رحمہما اﷲ تعالیٰ : کان ابن عمر رضي اﷲ تعالیٰ عنہما إذا سئل عمن طلق ثلاثا ، قال : لو طلقت مرۃ أو مرتین ، فإن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أمرني بہذا ، فإن طلقہا ثلاثا ، حرمت حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ ( بخاري : ۲/۷۹۲ )

اس روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اکٹھے تین طلاق سے عورت مغلظہ ہو جاتی ہے اس لئے کہ اس روایت میں بھی ظاہر یہی ہے کہ اکٹھے تین طلاق دینے کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ ابو داؤد ۱/۳۵ میں حضرت عویمر عجلانی کی حدیث ، ابن ماجہ ۱/۱۴۷ میں فاطمۃ بن قیس کی حدیث، زاد المعاد ۲/۲۵۷ میں حضرت عبد اللہ بن عمرکی حدیث، دار قطنی ۲/۴۳۸ میں حضرت حسن بن علی کا اثر ، ایسے ہی دار قطنی ۲/۴۳۲ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی حدیث مذکور ہے، ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث موجود ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تین طلاق اکٹھے دینے سے تین ہی واقع ہوتی ہیں۔

باقی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے بے شمار جوابات موجود ہیں  اس پر سند کے لحاظ سے اضطراب کا کلام بھی ہے ، متن کے لحاظ سے بھی اضطراب ہے ، اس کے متن کا مفہوم بھی کوئی واضح اور قطعی نہیں بلکہ اس میں کئی توجیہات واحتمالا ت ہیں ، اس کے علاوہ اتنا اہم مسئلہ جس سے ہر خاص وعام کو باخبر ہونا چاہئے اس میں ایک شخص کی روایت کا وزن ویسے ہی (عقل وشرع دونوں کی روسے ) کم ہوجاتی ہے ان سب پر مستزاد یہ کہ خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی اوران سے منقول قرآن کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر ان کی اس روایت کے خلاف ہے ، اتنی کمزور دلیل کو آخر قرآن ، صحیح اور صریح احادیث ، اجماع امت کے خلاف کیسے کوئی وزن دی جاسکتی ہے اور جب یہ دلیل اپنا وزن کھوبیٹھے تو اس کے بعد ان تمام شاذ آراء کی کوئی ایسی حیثیت باقی نہیں رہتی جس کو اجماع کے پائے جانے میں مخل مانا جائے ، اس وجہ سے فقہاء کرام نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں چند آراء کے اختلاف کی وجہ سے یہ مسئلہ اختلافی مسائل کے زمرے میں نہیں آتا۔

علامہ ابن القیم اور علامہ ابن الہمام رحمہما اللہ تعالیٰ نے اس بات پر اجماع تسلیم کیا ہے کہ اکٹھی تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں۔

قال العلامۃ ابن القیم رحمہ اﷲ تعالیٰ : ’’ وہذا ( أي وقوع الثلاث بکلمۃ واحدۃ ) قول الأیمۃ الأربعۃ وجمہور التابعین وکثیر من الصحابۃ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ ( زاد المعاد : ۲/۲۵۵ )

قال العلامۃ ابن الہمام رحمہ اﷲ تعالیٰ : أما أولا : فإجماعہم ظاہر ، فإنہ لم ینقل عن أحد منہم أنہ خالف عمر رضي اﷲ تعالیٰ عنہ حین أمضی الثلاث ۔ إلی قولہ ۔ وقد اثبتنا النقل عن أکثرہم صریحا بإیقاع الثلاث ولم یظہر لہم مخالف فماذا بعد الحق إلا الضلال ۔ ( فتح القدیر : ۳/۴۵۳ )

جب یہ مسئلہ اختلافی مسائل کے زمرے میں ہی شامل نہیں تو اس کے حوالے سےیہ کہنا کہ اختلافی مسئلے میں جب قانون کسی رائے کے موافق بن جائے تو اس کو لاگو کیا جائے گا ،کیونکہ جو قانون قرآن کے نصوص ، صحیح اور صریح احادیث اور اجماع امت کے خلاف ہو تو اس کو اس اصول کے تحت نافذ نہیں کیا جاسکتا ، لہذا ہمارے عائلی قوانین میں تین طلاق کو ایک شمار کرنے کا جو قانون ہے وہ اس اصول کی روسے لغو اور باطل ہے ، اسے فقہی اختلاف کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔

(ج) جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس مسئلے کا تعلق قرآن کے محکم ومؤبد نصوص اور صحیح وصریح احادیث کے ساتھ ہے تو ایسی صورت میں اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے اور آج کے زمانے کے حالات میں کوئی فرق ثابت ہوبھی جائے تو چونکہ اس قانون کا منشا زمان ومکان ، عرف وعادت کے قیود سے آزاد ہے ، لہذا اس کی وجہ سے مسئلہ کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ باقی یہ بات بھی بالکلیہ صحیح نہیں کہ اس زمانے میں نکاح میں مردوں کے لئے ہی مشکلات تھیں ، بے شمار واقعات ایسے ہیں جن میں معمولی مہر کے ذریعے نکاح ہوئے ہیں ،لہذا حضرت عمر کے زمانے میں صرف مردوں کےلئے اس قانون کا موجب زجر ہونا کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہیں ۔

استدلال(2):

ہاشمی کی تحریر میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے ، لہذا ا س میں فقہی اختلاف کی رعایت ملنی چاہئے کہ جو قانون بنا ہے اگر چہ وہ مرجوح فقہی رائے کے مطابق ہے اس کے باوجود اس کو برقرار رکھنا چاہئے۔ 

تبصرہ:

اس نکتے پرتبصرہ اوپر آچکا ہےکہ یکبارگی تین طلاق کے ایک ہونے کی رائے اجتہادی اختلاف کے زمرے میں نہیں آتا ، اس لئے کہ یہ قرآن ، صریح وصحیح احادیث اور اجماع کے خلاف ہے ، علامہ شامی ، علامہ ابن ہمام وغیرہ نے اس کو اختلاف کے بجائے خلاف قرار دے کر اس کے خلاف فتوی اور فیصلے کرنے سے منع فرمایا ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (3/ 470)

وَقَدْ أَثْبَتْنَا النَّقْلَ عَنْ أَكْثَرِهِمْ صَرِيحًا بِإِيقَاعِ الثَّلَاثِ وَلَمْ يَظْهَرْ لَهُمْ مُخَالِفٌ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إلَّا الضَّلَالُ. وَعَنْ هَذَا قُلْنَا: لَوْ حَكَمَ حَاكِمٌ بِأَنَّ الثَّلَاثَ بِفَمٍ وَاحِدٍ وَاحِدَةٌ لَمْ يَنْفُذْ حُكْمُهُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَسُوغُ الِاجْتِهَادُ فِيهِ فَهُوَ خِلَافٌ لَا اخْتِلَافٌ، وَالرِّوَايَةُ عَنْ أَنَسٍ بِأَنَّهَا ثَلَاثٌ أَسْنَدَهَا الطَّحَاوِيُّ وَغَيْرُهُ‘‘۔

حاشية ابن عابدين (3/ 233)

وعن هذا قلنا لو حكم حاكم بأنها واحدة لم ينفذ حكمه لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف وغاية الأمر فيه أن يصير كبيع أمهات الأولاد أجمع على نفيه وكن في الزمن الأول يبعن اه ملخصا۔‘‘

استدلال(3):

طلاق میں نیت ضروری ہے ، قرآن کی تعبیر ’’ وان عزمواالطلاق‘‘ اس کی دلیل ہے ، باقی ثلاث جدہن جد ۔۔۔۔والی روایت قرآن کے قطعی الثبوت نص کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

تبصرہ:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے اس اشکال کا جواب دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت اور اس حدیث (جس کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور کئی طرق سے منقول ہے) میں کوئی تعارض ہی نہیں ، قرآن کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق کے لئے دل کا ارادہ ہونا چاہئے ، یعنی ایسا نہ ہو کہ غیرارادی طور پر (سبقت لسانی کے تحت) طلاق بولا جائے اور یہ شرط تمام فقہاء کے مسلم ہے کہ ایسی صورت میں دیانتا طلاق واقع نہیں ہوتی ، جبکہ حدیث میں جس چیز کا بیان ہے وہ یہ ہے کہ دل کے ارادے اور ہوش وحواس کے ساتھ طلاق کا لفظ بولا جائے(جسکی وجہ سے عزم طلاق جو قرآن کی روسے شرط تھا پایا جائے) لیکن اس لفظ کے ساتھ کھیلاجائے کہ طلاق کے الفاظ کا تو ارادہ ہو لیکن طلاق کے حکم کا ارادہ نہ ہو تو حدیث نے یہ بات واضح کردی کہ طلاق ونکاح میں اس طرح کے کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں ورنہ پھر تو ہر آدمی کہے گا کہ میرا مقصد کھیل کھیلنا تھا ۔ فقہاء کرام نے اس کو بھی تسلیم فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص طلاق کے الفاظ ادا کرنے کے بعد اس میں کوئی ایسی تاویل کردے جس کی اس موقع ومحل کے لحاظ سے گنجائش بنتی ہو (مثلا تاکید کی نیت یا طلاق عن الوثاق کی نیت )تو اس تاویل کی صورت میں بھی طلاق واقع نہ ہوگی،کیونکہ وہاں عزم طلاق نہیں پایاگیا ۔ لیکن اگر ایک شخص تین طلاق دیتا ہے اور اس میں کوئی ایسی تاویل بھی نہیں کرتا تو اس کے طلاق کو ایک قرار دینے میں کوئی معقولیت نہیں ، نیز اگر یہ بات ہو کہ اس صورت میں عزم نہیں پایا جاتا تو پھر ایک طلاق بھی واقع نہیں ہونی چاہئے ،کیونکہ عزم کا پایا جانا تو ایک طلاق کے لئے بھی ضروری ہے ۔

استدلال(4):

قتل پر طلاق کا قیاس (کہ جیساکہ آلہ قتل کا حسی اثر بہرحال ہوتا ہے اس کا استعمال جائز طریقے سے کیا جائے یا ناجائز)قیاس مع الفارق ہے کیونکہ ارتکاب جرائم اور انعقاد معاہدات الگ الگ چیزیں ہیں۔

تبصرہ:

فقہاء نے یہاں قیاس سے کام نہیں لیا ، بلکہ محض بات سمجھانے کی حدتک تمثیل سے کام لیا گیا ہے ،باقی اگر اس کا قیاس کرنا ہو تو طلاق فی حالۃ الحیض ، ظہار ، صلاۃ فی الارض المغصوبہ ، بیع بعد اذان الجمعۃ وغیرہ پر کیا جائے گا کہ ان سب امور کا خلاف شرع اور باعث گناہ ہونے کے باوجودان پر قانونی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، طلاق کی صورت میں بھی ایساہے۔ نیز جیساکہ واضح ہوا کہ یکبارگی تین طلاقوں کا وقوع ان قیاسی دلائل کی روسے نہیں ، بلکہ صریح وصحیح نصوص کی روسے ہےتو کسی قیاسی دلیل کے رد کرنے سے اس مسئلہ کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

استدلال(5) :

الطلاق مرتان کا مطلب ہے طلاق الگ الگ الفاظ کے ساتھ دی جائے تاکہ اس کے بعد امساک بمعروف یا تسریح باحسان کا موقع بھی ملے ، جبکہ یکبارگی تین طلاقوں کی صورت میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔

تبصرہ:

اس آیت کا پس منظر جو کتب تفسیر میں مذکور ہے یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے پہلے لوگ ایک تو بے شمار طلاق دیتے تھے تین پر اکتفاء نہیں کرتے تھے ، دوسرا یہ کہ جب دل چاہتا تھا سینکڑوں طلاق دینے کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا اختیار حاصل رہتا تھا ، قرآن نے ان دونوں باتوں کو مسترد فرمایا ،پہلی آیت ’’ الطلاق مرتان ‘‘ میں رجوع کے حدود اور اس کی انتہاء طے فرمائی کہ دو طلاقوں تک رجوع کا اختیار باقی رہتا ہے ’’فامساک بمعروف اوتسریح باحسان‘‘ اور اس کے ضمن میں ’’مرتان‘‘ کے لفظ سے یہ بات بھی سمجھائی کہ طلاق ایک ہی جملہ کی بجائے الگ الگ جملوں اور الگ الگ طہر میں دینی چاہئے تاکہ اگر بعد میں شوہر کو ندامت ہوجائے تو اس کو سوچ بچار کا مناسب موقع طلاق کے عمل کے دوران بھی ملتا رہے اور کوئی ایسا فیصلہ وہ نہ کرے جو اس کےلئے قابل تحمل نہ ہو ۔اور دوسری بات کو اس طرح مسترد فرمایا کہ ان آیات کے بعد فرمایا ’’فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ‘‘ کہ جب تین طلاقیں پوری ہوجائیں تو پھر رجوع کا راستہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں کسی فقیہ کا اختلاف نہیں کہ طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے اور یہ کہ طلاق ایسے ہی دینی چاہئے ،لیکن اگر کسی نے اس طرح مناسب ومسنون طریقے سے طلاق نہیں دی تو اس کی طلاق واقع ہوگی یا نہ ہوگی یہ بالکل ایک الگ مسئلہ ہے اور اس تحریر کی ابتداء میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ایسی خلاف ضابطہ طلاق بھی واقع ہوگی اور خود قرآن ہی سے اس کا واقع ہونا ثابت ہے ۔

استدلال(6):

لعان کی صورت میں اگر کوئی شخص چاروں قسمیں ایک ہی جملہ سے اٹھانا چاہے کہ میں چار مرتبہ قسم کھاکر کہتاہوں کہ ایسا ایسا ہے تو وہ ایک قسم شمار ہوتی ہے تو طلاق میں بھی ایسا ہونا چاہئے۔

تبصرہ:

اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ’’ لاقیاس فی مقابلۃ النص ‘‘ لہذا جب قرآن وحدیث کے صریح نصوص سے یہ بات ثابت ہوگئی (جس کی تفصیل اوپر آچکی ہے) کہ یکبارگی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو اس کے بعد قیاسی وجوہات تلاش کرنا ہی بے محل ہے ، لیکن اس کے باوجود اس قیاسی دلیل کے چند جوابات پیش خدمت ہیں:

(الف) طلاق کا مطلب ہوتا ہے شوہر کی طرف سے بیوی کو اپنی قوامیت (قرآنی اصطلاح) سے نکالنا اور بیوی سے استمتاع کے جس حق کا شوہر مالک بنا تھااپنی اس ملکیت کو ختم کرنا ، لہذا طلاق ملکیت کے خاتمے کی ایک صورت ہے اس وجہ سے فقہاء کرام نکاح وطلاق کے مسائل کو معاملات کے زمرے میں شامل کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک گونہ تملیک وتملک (بیوی کی طرف سے شوہر کو حق استمتاع کا مالک بنانا اور شوہر کی طرف سے اس حق کا مالک بن جانے)کی صورت ہے ،نیز اس بناء پر رجعت (رجوع) کوتمام فقہاء کرام’’ استدامہ الملک‘‘ کے عنوان سےتعبیر فرماتے ہیں، لہذا طلاق کو اگر قیاس کرنا ہے تو ملکیت سے متعلق تصرفات پر قیاس کرنا ہوگا ،اس بناء پرتین طلاقوں کو یوں سمجھنا ہوگا کہ گویا شوہر تین مراحل میں بیوی کو واپس اُس چیز کا مالک بنارہاہے جو اس نے بیوی سے حاصل کی تھی ،اب یہ مالک بنانا اگر تین الگ الگ جملوں سے ہوتو بھی ہوسکتا ہے اور اگر ایک ہی جملے سے ہو تو بھی ہوسکتا ہے ، جیساکہ ایک شخص اپنی مملوکہ کوئی تین چیزیں دوسرے کو مالکانہ طور پر دینا چاہے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہرچیز سے متعلق الگ الگ معاملہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تینوں کو ایک ہی ایجاب میں جمع کرکے ایک ہی معاملہ کرے ۔

جبکہ لعان کا تعلق’’ باب الشہادات‘‘ سے ہے، کیونکہ لعان میں چارقسمیں ان چار گواہوں کے قائم مقام ہیں جو زنا کی تہمت لگانے کی وجہ سے شوہر کے ذمہ پیش کئے جانے تھے ، شریعت نے شوہر کو یہ رعایت دی کہ اگر قذف کی صورت میں اس کے پاس چارگواہ نہ بھی ہوں تو بھی اس کےلئے ایک دوسرا راستہ ہے کہ وہ چار مرتبہ قسم اٹھاکر کہے کہ میں اس تہمت میں سچا ہوں جو میں نے اپنی بیوی پر لگائی ہے ۔ اب جب یہ چار قسمیں چار شہادتوں کے قائم مقام ہیں تو جیساکہ چار شہادتوں کا الگ الگ ہونا ضروری ہے تو ان قسموں کا بھی الگ الگ جملوں کے ذریعے ادا کیا جانا ضروری ہے ۔ تو جیساکہ ہاشمی صاحب نے کہا ہے کہ طلاق کو جرائم کے مسائل پر قیاس نہ کیا جائے تو اسی طرح یہ بھی ایک اصول ہے کہ طلاق کو شھادت اور اس کے قائم مقام چیزوں پر قیاس نہ کیا جائے۔

’’وشرعا: (شهادات) أربعة كشهود الزنا (مؤكدات بالايمان مقرونة شهادته) باللعن وشهادتها بالغضب لانهن يكثر اللعن‘‘(الدرالمختار ،باب اللعان۳/۵۳۰)

(ب) لعان پر قیاس کرنے کی روسے اگر ایک شخص تین الگ الگ جملوں میں طلاق دے، لیکن ایک ہی مجلس میں دے تو تین طلاق واقع ہونی چاہیں ،جبکہ اس حوالے سے جو قانون ہے او ر ہاشمی صاحب جیسے لوگوں کا مدعا ہے وہ تو ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں بہرحال لغو ہیں ،خواہ ایک ہی جملے میں دی جائیں یا الگ الگ جملوں میں دی جائیں ، لہذا ا س قیاس سے ان کے پورے دعوے کا ثبوت ممکن نہیں۔

استدلال(7):

گھروں کو ٹوٹنے سے بچانا اور بچوں کو دربدر ہونے سے بچانا شریعت کے مقاصد میں سے ہے جس کی رعایت ضروری ہے۔

تبصرہ: 

اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ،اس لئے فقہاء کرام نے طلاق کی تین قسمیں ( حسن ، احسن ،بدعی ) بیان فرمائی ہیں اور ان طریقوں کی سخت حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو طلاق ونکاح کے درست مقاصد میں خلل کا باعث ہیں ،لیکن دوسری طرف ’’ ولاتتخذوا آیات اللہ ھزوا ‘‘کی روسے اللہ کے احکام کو تمسخر واستہزاء سے بچانا بھی مقاصد شریعت کے مقاصد میں سے ہے جس کی روسے تین طلاق کے اقدام کو نافذ قرار دیا گیا ہے اور یہ کسی مجتہد کا اجتہادی فیصلہ نہیں ، بلکہ صحیح اور صریح احادیث کی روسے ہے ، اب ہاشمی صاحب بتائیں کہ شریعت کے مقاصد کو وہ زیادہ سمجھتے ہیں یا خود صاحب شریعت۔بطور مثال دوروایات ملاحظہ ہوں:۔

عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ ان قوما جاءوا الی البنی صلی اللہ علیہ وسلم ،فقالوا: ان ابانا طلق امراتہ الفا،فقال: بانت امراتہ بثلاث فی معصیۃ اللہ ، وبقی تسعماۃ وسبعۃ وتسعون وزار ا فی عنقہ الی یوم القیامۃ۔‘‘ وعن علی رضی اللہ عنہ ،قال سمع البنی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا طلق البتۃ فغصب وقال : اتتخذون آیات اللہ ھزوا ،من طلق البتۃ الزمناہ ثلاثا لاتحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ۔(الطلاق الثلاث ، ھیئۃ کبار العلماء ،المملکۃ العربیۃ السعودیۃ)

استدلال: (8)

روایات کی بنیاد پر اس مسئلہ میں فیصلہ نہیں ہوسکتا ،قرآن کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔

تبصرہ:

اس نکتہ کی تفصیل اوپر آچکی ہے۔

استدلال(9):

قرآن کی ہدایات کے مطابق طلاقوں کا معاملہ گواہوں کی موجودگی میں ہونا چاہئے ۔ یعنی جہاں گواہ قائم نہ کئے جائیں اس طلاق کو کالعدم مانا جائے۔

تبصرہ:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ (ترمذي بَاب مَا جَاءَ فِي طَلَاقِ الْمَعْتُوهِ: ۱۱۱۲) مذکورہ روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے سننے یاگواہ وغیرہ کی شرط لگائے بغیر ہرطلاق کوواقع ہوجانے والی قرار دیا، اس لیے فقہاء کرام نے طلاق واقع ہونے کے لیے گواه وغيره کی شرط نہیں لگائی۔

باقي یہ بات درست ہے کہ طلاق کے معاملے کو جتنا محتاط اور سنجیدہ بنا یا جاسکے یہ شریعت کا تقاضا ہے ،لیکن اصل بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اگر کوئی اس ہدایت پر عمل نہ کرے تو اس کی دی ہوئی طلاق کو کالعدم مانا جائے ، یہ اصول غلط ہے جسیا کہ مذکورہ بالا سطور میں یہ بات واضح ہوگئی کہ گواہوں کے معاملے سے بھی بڑھ کر شرعی حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں طلاق کو صاحب شریعت اور تمام صحابہ کرام (بشمول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ) اور تمام سلف ومجتہدین نے موثر تسلیم فرمایا ہے تو گواہوں کا معاملہ تو اس سے بہت اہون ہے ۔ شریعت کی تو یہ بھی ہدایت ہے کہ تمام مالی معاملات گواہوں کی موجودگی میں کئے جائیں لیکن کیا آج تک کسی فقیہہ نے یہ بات کہی ہے کہ گواہوں کے بغیر انجام دئے ہوئے معاملات محض اس وجہ سے کالعدم ہے کہ اس میں گواہ بنانے کی ہدایت کی خلاف ورزی ہوئی ہے ،اور کیا خود ہاشمی صاحب اس بات کے قائل ہیں، اگر نہیں ہے تو دونوں صورتوں میں فرق کی وجہ کیا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں