ٹیلی ویژن کو ذریعہ معاش بنانے کا حکم

سوال: ٹیلیویژن  کو ذریعہ معاش  بنانا جائز  یا ناجائز ہونے پر دلالت کرتے ہوئے ٹیلیویژن کی صفت تجارت  اور اصلاح مرمت  کے بارے میں بھی دلیل دیں ؟

الجواب حامدا ومصلیا

ٹیلی ویژن کا زیادہ تر استعمال ناجائز امور میں ہوتا ہے  اور اس کا کاروبار  کرنا    کسی درجہ میں  گناہ پر تعاون ہے لہذا اس کو ذریعہ معاش بنانا   کراہت سے خالی نہیں  حتی الامکان کوشش کریں کہ کوئی دوسرا کاروبار کر سکیں تو زیادہ بہتر ہے، البتہ  اس کی  مرمت  میں قیمتی اشیاء اور اپنی ذاتی محنت صرف ہوتی ہے اس لیے اس کی آمدنی کو حرام نہیں کہا جاسکتا۔

تفسير ابن كثير (2/ 12)

“وَقَوْلُهُ: {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ} يَأْمُرُ تَعَالَى عِبَادَهُ الْمُؤْمِنِينَ بِالْمُعَاوَنَةِ عَلَى فِعْلِ الْخَيْرَاتِ، وَهُوَ الْبَرُّ، وَتَرْكِ الْمُنْكِرَاتِ وَهُوَ التَّقْوَى، وَيَنْهَاهُمْ عَنِ التناصر على الباطل وَالتَّعَاوُنِ عَلَى الْمَآثِمِ وَالْمَحَارِمِ”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 268)

“لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور… وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب الذي يتخذ منه العازف”

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 144)

ويجوز بيع آلات الملاهي من البربط، والطبل، والمزمار، والدف، ونحو ذلك عند أبي حنيفة لكنه يكره وعند أبي يوسف، ومحمد: لا ينعقد بيع هذه الأشياء؛ لأنها آلات معدة للتلهي بها موضوعة للفسق، والفساد فلا تكون أموالا فلا يجوز بيعها ولأبي حنيفة – رحمه الله – أنه يمكن الانتفاع بها شرعا من جهة أخرى بأن تجعل ظروفا لأشياء، ونحو ذلك من المصالح

الفتاوى الهندية (4/ 450)

“وفي نوادر هشام عن محمد – رحمه الله تعالى – رجل استأجر رجلا ليصور له صورا أو تماثيل الرجال في بيت أو فسطاط فإني أكره ذلك وأجعل له الأجرة قال هشام: تأويله إذا كان الإصباغ من قبل الأجير. كذا في الذخيرة”

فتاوی عثمانی۳/۸۴

“ٹی وی اور وی سی آر کا کاروبار کراہت سے خالی معلوم نہیں ہوتا،لہذا اگر کوئی دوسرا کاروبار کرسکیں تو زیادہ بہتر ہے،حتی الامکان اسی کی کوشش کریں”

واللہ اعلم بالصواب

حررہ العبد حنظلہ عمیر غفر لہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۴/۶/۱۴۴۱ھ

ء2020/1/29

اپنا تبصرہ بھیجیں