ٹیکس کاتفصیلی حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:207

سوال:ٹیکس کاحکم تفصیل سےبیان کیجیے!

الجواب حامداومصلیاً

  • کسی بھی مملکت اورریاست کوملکی انتظامی امورچلانےکےلیے، مستحقین کی امداد، سڑکوں، پلوں اورتعلیمی اداروں کی تعمیر، بڑی نہروں کاانتظام، سرحد کی حفاظت کاانتظام، فوجیوں اورسرکاری ملازمین کومشاہرہ دینے کےلیے اوردیگر ہمہ جہت جائزاخراجات کوپورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی اوران وسائل کوپورا کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ،خؒفائے راشدین رضوان اللہ اجمعین کےمبارک عہد اوران کے بعد کے روشن  دورمیں بیت المال کاایک مربوط نظام قائم تھااوراس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیےجاتے تھے مثلاً”خمس غنائم” یعنی جومال کفارسےبذریعہ جنگ کےحاصل ہواس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بعد باقی پانچواں حصہ مال فیئی یعنی وہ مال جو بغیر کسی مسلح جدوجہد کے حاصل ہو۔ “خمس معاون”یعنی مختلف قسم کے کانوں سےنکلنے والی اشیاءمیں سے پانچواں حصہ “خمس رکاز”یعنی جوقدیم خزانہ کسی زمین سےبرآمدہو اس کابھی پانچواں حصہ مسلمانوں کی زکوٰۃ ،صدقۃ الفطر اوران کی زمینوں کاعشر ،خراج جس میں غیرمسلموں کی زمینوں سےحاصل شدہ خراج اوران کاجزیہ اوران سےحاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ اموال جو غیر مسلموں سےان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طورپر حاصل ہوں اورضوائع یعنی لاوارث مال، لاوارث شخص کی میراث وغیرہ ۔

لیکن آج کےدورمیں جب کہ یہ اسباب وسائل یا توبالکل ناپید ہوگئے ہیں یا اس زمانہ میں حکومت جتنی سہولتیں فراہم کررہی ہیں ان کے لیے یہ وسائل ناکافی ہیں لہذا ان ضروریات اوراخراجات کوپوراکرنےکےلیےٹیکس کا نظام قائم کیا گیا کیونکہ اگرحکومت ٹیکس نہ لےتوفلاحی مملکت کا سارا نظام خطرہ میں پڑجائے گا،البتہ اس میں شک نہیں کہ مروجہ ٹیکس ( انکم ٹیکس،ویلتھ  ٹیکس،جنرل سیلزٹیکس)کےنظام میں کئی خرابیاں ہیں سب سے اہم یہ ہےکہ ٹیکس کی شرح بعض مرتبہ نامنصفانہ بلکہ ظالمانہ ہوتی ہیںاور یہ کہ وصولی کے بعد بے جا اسراف اور غیر مصرف میں ٹیکس کو خرچ کیا جاتا ہے لیکن بہرھال ٹیکس کے بہت سے جائز مصارف بھی ہیں اس لیے یہ کہنا کہ حکومت کے لیے مطلقا ٹیکس لینا جائز نہیں یا یہ کہ تمام ٹیکس ظالمانہ ہیں درست نہیں۔( ماخذہ التبویب  بتصرف 34/544)

(4،2) نمبر(1) میں ذکرکردہ تفصیل کےمطابق اگرحکومت کے جائزمصارف دیگر ذرائع آمدنی سےپورے نہیں ہوتےجیساکہ ہمارے زمانہ کاحال توحکومت کواپنےمصارف پوراکرنےکےلیےٹیکس لینےکی چند شرائط کے ساتھ اجازت ہے:

1۔بقدرضرورت ٹیکس لگایاجائے ۔

2۔لوگوں کےلیےقابل برداشت ہوں۔

3۔وصولی کاطریقہ مناسب ہو۔

4۔ٹیکس کی رقم کوملک وملت کی واقعی ضرورتوں اورمصلحتوں پرصرف کیاجائے۔

جس ٹیکس میں مندرجہ بالاشرائط کالحاظ نہ کیاجاتا ہوتوحکومت کےلیےایسےٹیکس جائزنہیں۔

3)۔۔کسی بھی مملکت میں رہنے والاشہری عملاً اس ملک کےقوانین کی پاسداری کرنےکاعہد کرتا ہےاورحاکم کی طرف سے جوجائزقانون لاگوکیاجاتاہے اس کوبجالانا اوربلاعذر شرعی اس کی خلاف ورزی نہ کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ لہذاایسے ٹیکس جوواقعی ضروریات اوراخراجات کےلیے لگائے جاتے ہیں ان کواداکرناضروری ہے اورٹیکس چوری کرناجائزنہیں ۔ا لبتہ جوٹیکس ظالمانہ ہیں  ان میں اگرحکومت سے گفت وشنید کے ذریعے کوئی کوئی جائز صورت نکل آئے جس میں شرعا کوئی قباحت نہ ہو تو اس کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر حکومت سے گفت وشنید  کرکے بھی ظالمانہ ٹیکس سےبچنے کی کوئی ممکن صورت  نہ بن سکے تواس صورت میں صریح جھوٹ بولے یا لکھے بغیر توریہ کرکےعزت وآبروکے ساتھ بچناممکن ہوتواس کی گنجائش ہے اور اس صورت میں گناہ نہیں، بشرطیکہ  اس صورت میں بھی کسی خلاف شرع کام مثلا ًرشوت وغیرہ کاارتکاب لازم نہ آئے ۔ ( ماخذہ التبویب بتصر ف:1457/90)

الدرالمختار۔ (4/217)

حاشیۃ ابن عابدین ( رد المختار)(217/4)

الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین ( ردالمختار) (2/336)

فقہ الزکاۃ یوسف  القرضاوی ( 2/493)

بدائع الصنائع  ،دارالکتب العلمیۃ ( 7/99)

جنید احمدخان

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

30صفر 1436

23 دسمبر2014

الجواب صحیح

محمدیعقوب عفااللہ عنہ

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/850362215333025/

اپنا تبصرہ بھیجیں