تومیری طرف سے فارغ ہے سے طلاق کا حکم

سوال: بیوی نے اپنے خاوند سے کہا مجھے طلاق دےدے غصہ میں خاوند نے کہا جا تو میری طرف سے فارغ ہے فارغ ہے فارغ ہے کیا بیوی مغلظہ ہو گئی ہے ۔اگر خاوند کہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو اس حال میں اس کا قول معتبر ہوگا ؟

سائل:محمد احمد

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ لفظ “جا ” ان کنایات میں سے ہے کہ ہر حال میں اس سے طلاق واقع ہونے میں نیت شرط ہے لہذا مذکورہ صورت میں اگر شوہر طلاق کی نیت کا انکار کرتا ہے تو اس سے طلاق واقع نہ ہوگی البتہ اس کے بعد شوہر نے یہ الفاظ ” میری طرف سے فارغ ہے” بیوی کی طرف سے طلاق کے مطالبہ پر کہے ہیں لہذ ا ان الفاظ کی وجہ سے ایک طلاق بائن واقع ہو گئی جس سے بیوی شوہر کے نکاح سے نکل گئی ہے اور دوسری اور تیسری مرتبہ ” فارغ ہے “کہنا لغو ہو گیا کیونکہ فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ بائن بائن کے ساتھ ملحق نہیں ہوتی ، اب اگر فریقین باہمی رضامندی سے دوبارہ ازدواجی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرنا ضروری ہے البتہ شوہر کو آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 296)

“الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لاولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) ۔۔۔(يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن يصلح سبا۔۔۔(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقعو بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة”

الفتاوى الهندية (1/ 374)

“(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق۔۔۔(وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية۔۔۔وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 308)

“(لا) يلحق البائن (البائن) (قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح”

الفتاوى الهندية (1/ 377)

“ولا يلحق البائن البائن بأن قال لها أنت بائن ثم قال لها أنت بائن لا يقع إلا طلقة واحدة بائنة لأنه يمكن جعله خبرا عن الأول وهو صادق فيه فلا حاجة إلى جعله إنشاء”

الفتاوى الهندية (1/ 438)

“ولو قال لها في غضبه: اخرجي ولا نية له كان على الإذن إلا إذا نوى اخرجي حتى تطلقي كذا في الخلاصة”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۹/۱۰/۱۴۴۱ھ

2020/6/2ء

اپنا تبصرہ بھیجیں