توحیدباری تعالی:پہلی قسط

توحیدباری تعالی:پہلی قسط

توحید سے مراد یہ ہے کہ دل ودماغ کی گہرائیوں سےیہ یقین رکھاجائےکہ اللہ تعالی ایک ہے، اس کاکوئی شریک نہیں۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے نہ بیوی۔سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کارخانۂ عالم چلانے کے لیے اسے نہ وسائل کی ضرورت ہے نہ افراد کی۔ اس کی قدرت اور علم ہر چیز کو محیط ہے،اس کاکوئی مثل نہیں،نہ اس کی ذات وصفات کو کوئی سمجھ سکا ہے نہ سمجھ سکتا ہے۔

حضرت مولانا یحیی مدنی نور اللہ مرقدہ اکثر ایک شعرپڑھا کرتے تھے :

تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

ہم جان گئے بس تیری پہچان ہی یہی ہے

سورۃ محمد آیت نمبر 19 میں توحید کا علم حاصل کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ارشاد ہے:

فاعلم انہ لاالہ اللہ : ’’پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘اس آیت میں فاعلم صیغہ امر ہےجس سے توحید کے علم کو لازمی اور فرض قرار دیاگیا ہے۔

دلائل توحید

قرآن پاک میں توحید کے کئی دلائل دیے گئے ہیں:

۱۔اللہ تعالی نے انسان پر ہزارہا نعمتیں کی ہیں، اس کے احسانات ان گنت ہیں، ہر پل وہ انسان کی پرورش کررہا ہے، تو جب اللہ کی اتنی نعمتیں اور احسانات ہیں تو انسان کو عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے، مدد اسی سے مانگنی چاہیے!یہ کیا بات کہ کھائیں اللہ کا اور عبادت غیراللہ کی ہو!اس دلیل کو توحید کی دلیل ربوبیت کہہ سکتے ہیں۔

۲ ۔دوسری دلیل، دلیل قدرت ہے۔ آسمانوں، سیاروں، ستاروں اور ان کے علاوہ دوسری ہزارہا مخلوقات کی تخلیق اور ان کا قیام، پہاڑ سے اونٹنی کا نکالنا، ، بحر وبر، فضا وخلا کے قوانین، کروڑوں انسان اور ان کے بدلتے ہوئے چہرے ، ان کے رنگ ،زبانیں اور قبائل یہ سب اللہ تعالی کی قدرت کا مظہر ہیں، اس کے علم و ارادے کا تو پوچھنا ہی کیا!ماضی، حال، مستقبل، ازل سے ابد تک کی ہرشے اس کے علم میں ہے، درخت کے جھڑتے پتے ، اندھیر راتوں میں رینگتی کالی چیونٹیاں غرض ہر چیز اس کے علم وقدرت میں ہے۔سات سمندر کو سیاہی اور زمین کے سب درختوں کو قلم بنادیاجائے اور اس کے علم وقدرت کو لکھنا شروع کیاجائے تو قلم وروشنائی ختم ہوجائیں لیکن اس کے علم وقدرت اور اس کی مدح وثنا کی باتیں ختم نہ ہوں۔

ایسی ذات کی عبادت کی بجائے لوگ بتوں کی ، مخلوقات کی اور بندگان خدا کی عبادت میں لگے رہتے ہیں، یہ کتنی بڑی جہالت کی بات ہے؟ جو ذات اتنی بڑی قدرت کی مالک ہے وہ کیا اپنے بندوں کی فریاد نہیں سن سکتے؟ ان کی مدد نہیں کرسکتے؟

۳۔توحید کی تیسری دلیل خود انسانی فطرت ہے۔معصوم بچے اللہ، اللہ کہتے ہوئے روتے ہیں۔انسان سخت مشکلات میں، زلزلوں، طوفانوں میں، سمندری موجوں کے تلاطم کے وقت جب وہ موت کو اپنے سامنے پاتا ہے، اس وقت ایک اللہ ہی کو پکارتا ہے، تو جب مشکلات میں انسان ایک اللہ کو پکارتا ہےتو عام زندگی میں غیروں کی پرستش کیوں؟

۴۔چوتھی دلیل نظم کائنات ہے۔ آسمان وزمین صدیوں سے اپنی جگہ قائم ہیں،یہ اللہ کے یکتا وتنہا معبود ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ بالفرض اگر اللہ کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو ان خداؤں میں نظام کائنات پر حکمرانی کے لیے رسہ کشی ہوتی، لڑائیاں ہوتیں، ان کے بھی کئی گروپس ہوتے، زمینی خدا سب مل کر آسمانی خدا کی حکومت سے بغاوت کردیتے۔اور جب لڑائیاں ہوتی ہیں تو نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔لیکن نظام کائنات اپنی آب وتاب کے ساتھ قائم ہے۔معلوم ہوا کہ ایک اللہ کے علاوہ اور خداؤں کا سرے سے وجود ہی نہیں۔

۵۔انسانی روایات ، قدیم تہذیب وتاریخ اور آسمانی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک آسمانی خدا کا تصور ہر دور، ہر مذہب اور ہر تہذیب میں رہا، لیکن مختلف عوامل اور جہالتوں کی وجہ سے لوگوں نے دوسری چیزوں کو مشکل کشا، حاجت روا سمجھنا شروع کردیا۔آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد توحید پر چلتے رہے، ان کے بعد کی نسلوں میں شیطان نے شرک پیدا کیا ،اور وہ ” ود،سواع، یغوث، یعوق اور نسر “کو خدا بنابیٹھے۔پھر اللہ نے نوح علیہ السلام کو بھیجا ، انھوں نے شرک کی نفی کی اور توحید کی دعوت دی، پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔

غرض دنیا میں اصل مذہب توحیدپرستی تھا ،لیکن حوادث زمانہ بعد والی نسلوں میں شرک پیدا کرتے رہے، یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا، شیطان انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکاتا رہا۔لہذا انسان کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا چاہیے اور شرک کی جہالتوں سے باز آنا چاہیے!

۶۔ جن عظیم شخصیات کو لوگوں نے اپنی طرف سے خدائی اختیارات تفویض کر رکھے ہیں ،خود ان کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنی سب مشکلات اﷲ کے سامنے پیش کر تے تھے، اور اﷲ ہی ان آزمائشوں سے ان کو نکالتا تھا، تو جب مقدس ہستیاں خود اﷲ کی محتاج ہیں تو وہ دوسروں کی حاجتیں کیسے دور کرسکتے ہیں؟

۷۔ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو ذرہ برابر بھی نفع و نقصان کا مالک ہو،بلکہ ہر ایک اللہ کا محتاج ہے۔ لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے بتوں کو تراشتے ہیں، اور جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں،یہ سب بت ایسے گونگے بہرے ، محتاج اور فنا ہوجانے والے،یہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ أَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ۔:

ترجمہ:(اے پیغمبر) ان سے کہو : کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پکاریں جو ہمیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہیں، نہ نقصان اور جب اللہ ہمیں ہدایت دے چکا ہے تو کیا اس کے بعد بھی ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ؟

(جاری ہے۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں