اوبرا ور کریم سے متعلق دارالعلوم کراچی کا فتوی

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:209

محترم جناب مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ!

کچھ کمپنیاں موبائل ایپلیکیشن کے ذریعہ  ٹیکسی کی سہولت عوام کو فراہم کرتی ہیں جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کمپنی اپنی ذاتی گاڑی بطورٹیکسی استعمال نہیں کرتی بلکہ گاڑیاں عام لوگوں کی ہوتی ہیں جو کمپنی  سے رجسٹرڈ ہو کر پھر کمپنی  کی ایپلیکیشن کے توسط سے مسافروں کو کم خرچ اور آرام دہ سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔ کمپنی  صرف ٹیکنالوجی سروسز مہیا کرتی ہے۔ در یافت طلب امر یہ ہے کہ کمپنی اور گاڑی مالکان کے درمیان ہونے والے عقد کا شرعی حکم کیا ہے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں ۔

١. کمپنی ٹیکنالوجی سروسز کے ضمن میں مختلف طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔

 مثلا , Customer Application

, User Application , Driver Application

Monitoring, Fare calculation etc.

2 . گاڑیوں کے مالکان کے لیے کام کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں ہوتا وہ جب چاہیں بذر یعہ ایپلیکیشن آن لائن ہو جائیں کمپنی انہیں مسافروں کی فراہمی اور دیگر سروسز بہم پہنچانا شروع کردیتی ہے ۔ البتہ جس قدر بھی آمدن انہیں حاصل ہوگی اس میں سے کمپنی اپنا فیصدی حصہ وصول کر لے گی گو وہ تھوڑےوقت کی تھوڑی آمدن ہو یا اسکے برعکس لیکن  گارنٹڈ پیمنٹ حاصل کرنے کے لیے کم از کم مدت متعین ہوتی ہے ۔ جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔

3 . سفر کے کرایہ سے تعلق تفصیلات: کرایہ کمپنی خود طے کرتی ہے ۔ جس میں گاڑی مالکان کی رائے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ البتہ کرایہ میں ردو بدل سے انہیں باخبر رکھا جاتا ہے ۔ کرایہ کے بنیادی تین حصے ہوتے ہیں۔

  1. Base Fare مثلا 100 روپے
  2. Per Km Fareمثلا 10 روپے
  • (Per Mint) Time Fare  مثلا  3روپے

 Base Fare و ہ بنیادی کرایہ ہے جس کے ساتھ طے کردہ مسافت اور ٹائم کے کرایہ کو جمع کر کے ٹوٹل نکالا جاتا ہے گویاBase Fareسفر کی ابتدا سے ہی لا گو ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ فی منٹ کرایہ بعض  کمپنیوں کے ہاں تب چارج کیا جاتا ہے جب گاڑی کی رفتار مقررہ حد مثلا 15 کلومیٹر فی گھنٹہ  سے کم ہو جائے جبکہ دیگر کمپنیاں رفتار  کی کوئی تحدید نہیں کرتیں۔ بلکہ سفر میں کل صرف شدہ  وقت پر فی منٹ چارج کرلیتی ہیں۔

بعض کمپنیاں نئے مسافروں کو پہلی رائیڈ  مفت دیتی ہیں لیکن گاڑی مالکان کو اس رائیڈ کی ادائیگی کمپنی  کی جانب سے اس کے حصے کے مطابق کر دی جاتی ہے۔

گاڑی طلب کرنے کے لیے ریکویسٹ بھیجنے کے بعد ابتدائی دو یا تین منٹ کے اندر مسافر رائیڈ منسوخ کرسکتا ہے۔ اس کے بعد منسوخ کرنے کی صورت میں کمپنی 50روپے یاکم وبیش جرمانہ وصول کرتی ہے جس کی وصولی اس مسافرکی اگلی  رائیڈ کے کرایہ میں شامل کر کے کی جاتی ہے

  1. متعاقدین کے مابین آمدن کی تقسیم : اس کی بنیادی طور پر دو شقیں ہیں:

(1) گارنٹڈ پیمنٹ: اس میں کمپنی  گاڑی کے مالک کو ایک طے شدہ رقم دینے کی پابند ہوتی ہے لیکن  مذکورہ شرائط کے ساتھ:

١. اگر ڈرائیور کی کمپنی کے توسط سے حاصل ہونے والی ریکویسٹ کو قبول کرنے کی شرح 90 فیصد ہو

٢. یومیہ  کم از کم 11 گھنٹے مثلا ڈیوٹی پر موجود رہے۔

٣. یومیہ تقریبا  10 مسافروں کو سفر کی سہولت بہم پہنچائے۔

تو کمپنی اسے گارنٹڈ پیمنٹ مثلا-/3500.Rs روپے دینے کی پابند ہوگی۔ اگر ڈرائیور کی آمدن-/Rs3500 سے کم مثلا -/Rs3000 ہو تو کمپنی  اپنے پاس سے 500 روپے ڈال کر -/3500.Rs روپے پور سے ادا کرنے کی پابند ہوگی ۔ اور اگر ڈرائیور کی آمدن-/3500.Rs .سے زیادہ  مثلا-/4500 .Rs ہو تو زائد رقم  گاڑی کے مالک کی ہوگی  مگر کمپنی اپنافیصدی حصہ اس میں سے بھی وصول کرے گی۔

 (2) فیصدی تقسیم : کمپنی  کل آمدن کا %25 ٹیکنالوجی سروسز کی مد میں وصول کرتی ہے۔ کمپنی اپنے فیصدی حصہ کو سروس فیس کا نام دیتی ہے۔

 بعض کمپنیاں گارنٹڈ پیمنٹ کی صورتصرف نئے شہروں میں کام شروع کرنے کے ابتدائی چند مہینوں میں لاگو کر تی ہیں ۔ اس کے بعد پھر فیصدی تقسیم پر عمل ہوتا ہے  جیسا  کہ ہمارے شہر لاہور میں آجکلUBER کمپنی کررہی ہے۔

 5- بونس:۔

 (i)مالک کے لیے بونس:- مثلا جمعہ اور ہفتہ یا عید وغیرہ کے دن 10 رائڈ پر -/1000 روپے بونس ، اگر دو ہفتوں میں 150 رائڈ کر لیں  تو -/000  , 10روپے بونس  ملے گا اور اگر 130 کرلیں تو-/7000بونس ملے گا۔

(ii) ڈرائیور کے لیے بونس:۔ بعض کمپنیاں ڈرائیور کوعلیحدہ سےبونس  دیتی ہیں جس کے لین دین سے  مالک کا کوئی تعلق نہیں ہوتا . یہ بونس  دو طرح کے ہوتے ہیں کارکردگی بونس،  حوالہ جاتی بونس  وغیرہ

مستفتی نے فون پر بتایا کہ جس طرح کسٹمراور کمپنی  کے درمیان بنیادی کرایہ متعین ہوتا ہے.اسی طرح گاڑی کے مالک  اورکمپنی کے درمیان بھی  بنیادی کرایہ متعین ہوتا ہے. مستفتی سے مزید معلوم ہوا کہ سواری کی منسوخی کی صورت میں جتنی رقم کمپنی کسٹمر سے وصول کرتی ہے اس کا ٧٥ % گاڑی کا مالک وصول کرتا ہے.

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب حامدا و  مصلیا

سوال پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ معاملہ میں بنیادی طور پر “دو عقد اجاره “وجود میں آتے ہیں، تفصیل حسب ذیل ہے:۔

 (1) کمپنی اور گاڑی کے مالک کے در میان عقد اجاره:

بنیادی طور پر کمپنی اور گاڑی کے مالک کے درمیان عمومی مفاہمت ہوتی ہے کہ جب کمپنی سے سواری کی خدمت طلب کی جائیگی، کمپنی اس کے لئے گاڑی کے مالک کی خدمات حاصل کریگی، پھر جب کمپنی گاڑی کے مالک کو سوار کی فراہم کریگی اس وقت وقتی اجاره منعقد ہو گا اور سواری کو مطلوبہ مقام تک پہنچانے پر کمپنی اور گاڑی کے مالک کے درمیان یہ اجارہ کا معاملہ ختم ہو جائیگا، لیکن اول الذکر عمومی مفاہمت بہر حال باقی رہے گی۔

اس معاملہ میں کمپنی کی فقہی  حیثیت “مستاجر “کی بنتی ہے اور گاڑی کے مالک کی فقہی حیثیت “اجیر” کی بنتی ہے۔

(۲) کمپنی اور گاہک (Customer) کے در میان عقد اجاره:

اس معاملہ میں کمپنی کی فقہی حیثیت “اجیر” کی بنتی ہے اور گاہک کی حیثیت “مستاجر “کی بنتی ہے، اور “معقود علیہ “گاہک کو گاڑی فراہم کرنے کی سہولت ہے۔

گاہک (Customer اور کمپنی کے در میان تعیین  اجرت کا طریقہ کار:

سوال کے مطابق مذکورہ معاملہ میں ایک اور کمپنی کے در میان اجرت کی تعیین  اس طرح ہوتی ہے کہ “اجرت”  کا ایک حصہ متعین ہوتا ہے مثلا۰۰ اروپے، جسے  بنیادی کرایہ (Basefare) سے موسوم کیا جاتا ہے، اور باقی اجرت (Fare) کلومیٹر اور منٹ (waiting charges بھی منٹ کی اجرت کی شکل میں لے جاتے ہیں)

کے حساب سے طے کی جاتی ہے، جس کے لئے پہلے سے فی کلو میٹر مثلا ۱۰روپے اور فی منٹ مثلا ٣  ر و پے خدمت فراہم کرنے کا عوض مقرر کیا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ سوال کے مطابق بعض کمپنیوں کا یہ ضابطہ ہوتا ہے کہ وہ صرف فی کلو میٹر اجرت کا حساب (Charge) کرتی ہیں ، اور فی منٹ حساب (Charge) کرنااس وقت شروع کرتی ہیں جب گاڑی کی رفتار مثلا ١٥  کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہو.

گاڑی کے مالک اور کمپنی  کے درمیان تعیین  اجرت کا طریقہ کار:

سوال میں ذکر کردہ تفصیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ بنیادی طور پر جس طرح گاہک اور کمپنی کے  در میان ہر عقد میں مثلا ۱۰۰روپے بطور بنیادی کرایہ حتمی طور پر طے ہوتا ہے اسی طرح کمپنی اور گاڑی کے   مالک کے درمیان ہر عقد میں مثلا ١٠٠  روپے بطور بنیادی کرایہ حتمی  طور پر طے ہوتا ہے ، پھرعقد کی باقی  اجرت مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق کلو میٹر اور منٹ کے حساب سے طے ہوتی ہے یعنی ہر  عقد میں گاڑی کے مالک کی خدمات کے عوض کمپنی  کو جو مجموعی اجرت حاصل ہونی ہے کمپنی  اس کا مجموعی طور پر ٧٥  فیصد گاڑی کے مالک کو بطور اجرت دیتی ہے۔

مذکورہ معاملہ کا حکم:

شرعی اعتبار سے اجارہ کے یہ دونوں معاملے جائز ہیں کیونکہ یہاں عقد میں اجرت کا ایک حصہ متعین ہوتا ہے، جس سے نفس اجرت مجہول نہیں رہتی، اور اجرت کے باقی حصہ میں جو جہالت ہوتی ہے وہ اس لئے مفسد عقد نہیں کیونکہ باقی اجرت طے کرنے کیلئے کمپنی نے جو طریقہ کار وضع کیا ہوا ہے وہ معلوم اور معروف ہونے کی وجہ سے وہ عمومامفضی  الی النزاع (جھگڑے کا سبب) نہیں ہوتی اور حضرات فقہاء کرام کی تصریح  کے مطابق وہ جہالت مفسد عقد ہوتی ہے جو مفضی الى النزاع ہو، (كما في رد المحتار ٦/٥٣) جبکہ مذکورہ صورت میں فریقین اس پر رضامند ہوتے ہیں، اس لئے اجارہ کے مذکورہ دونوں معاملے شرعا جائز ہیں۔ کما في فقه البيوع (۱ /۳۹۲) والظاهر من كلام الفقهاء في هذه المسائل أن للعرف دخلا كبيرا في إخراج عملية من الغرر الفاحش الممنوع، ولا شك أن ما تعورف في البوفيه من هذا القبيل، لأن الناس يتعاملون به ولا تؤدي هذه الجهالة إلى النزاع.

 گارنٹیڈ پیمنٹ (Guaranteed Payment):

واضح رہے کہ سوال کے مطابق کمپنی نے کچھ خاص کوائف رکھے ہیں کہ اگر کوئی ان کوائف پر پورا اتر آئے تو کمپنی اسے گارنٹیڈ پیمنٹ دیتی ہے اس کی فقہی  حیثیت یہ بنتی ہے کہ گویا کمپنی نے طے کیا ہوا ہے کہ پورے دن میں جس عقد اجاره پرگاڑی کا مالک مقررہ کوائف پورے کرلیگا:

اگر اس دن کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس گاڑی کے مالک کو ملنے والی مجموی فیصدی اجرت ۳۵۰۰ سے کم ہو تو.۳۵٠۰سے جتناکم  ہو، کمپنی  اس خاص عقد کے عوض اس عقد کی فیصدی اجرت کے علاوہ وہ فرق بھی بطور اجرت اداکریگی۔

لیکن اگر اس دن کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہوئے گاڑی کے مالک کو ملنے والی مجموعی فیصدی اجرت٣٥٠٠ یا اس سے زیادہ ہوگئی ہو تو پھر اس عقد جس پر اس نے کوائف پورے کر لئے ہیں کمپنی اس کی بھی صرف فیصدی اجرت ادا کریگی۔ تو گویا یہ کمپنی کی طرف سے طے ہوتا ہے کہ جس عقد پر گاڑی کا مالک کوائف پورے کرے گا اس کی اجرت مذکورہ دو شقوں میں سے کوئی ایک ہوگی ۔ اور شرعی لحاظ سے عقد اجارہ کی اجرت دوشقوں میں طے کر ناجائز ہے۔

کمپنی کی طرف سے گاڑی کے مالک کو دیئے جانے والے بونس(Bonus) کی شرعی حیثیت:

جہاں تک گاڑی کے مالک کے لئے کمپنی کی طرف سے ملنے والے بونس کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ کمپنی کی طرف سے گاڑی کے مالک کو خاص صورتوں میں جو مختلف بونس دیئے جاتے ہیں مثلا: جمعہ اور ہفتہ کو دس مرتبہ سواری(Ride) فراہم کرنے پر ایک ہزار روپیہ بونس دیا جاتا ہے تو اس کی فقہی حیثیت یہ بنتی  ہے کہ گویا کمپنی کی طرف سے طے ہوتا ہے کہ گاڑی کامالک جس عقد پر یہ بونس والی شرط پر پورا اتر آئیگا اس عقد کی اجرت میں کمپنی مزید ہزار روپے بھی بطور اجرت دیگی۔ اور اس میں شرعا قباحت نہیں، لأنه ترديد في الاجرة

 کمپنی کی طرف سے گاڑی چلانے والے Captain کو دیئے جانے والے بونس(Bonus) کی شرعی حیثیت:

ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاڑی کا مالک گاڑی خود چلانے کے بجائے کسی اور کو اپنی گاڑی چلانے کے لئے مقررہ اجرت کے عوض ڈرائیور رکھ لیتا ہے،کمپنی  اس ڈرائیور کو بھی کچھ خاص شرائط پر پورا اترنے پر بونس دیتی ہے، شرعی اعتبار سے چونکہ اس ڈرائیور اورکمپنی  کا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ معاہدہ کمپنی اور گاڑی کے مالک کا ہوتا ہے اور اگرچہ ڈرائیور کو گاڑی کے مالک کی طرف سے اپنی اجرت مل رہی ہوتی ہے، لیکن چونکہ وہ ہر صورت میں ملنی  ہے خواہ وہ اپنے بونس والی شرط پر پورا اترے یانہ اترے، لہذا گروہ بونس والی شرط پر پورا اتر آتا ہے اور اس پر کمپنی اسے کچھ بونس دے دیتی ہے تو شرعی اعتبار سے کمپنی کی طرف اس کے لئے اس کی اچھی کارکردگی کے عوض یہ ہدیہ اور انعام ہے۔

گاہک  (Customer) سواری (Ride) طلب کرنے کے بعد اگر دو تین منٹ کے بعد منسوخ کر دے:

سوال کے مطابق اگر کوئی گاہک  سواری طلب کر کے مثلا دو  یا تین منٹ کے بعد منسوخ کر دے توکمپنی اس گاہک سے مثلا ١٠٠ روپے وصول کرتی ہے اور گاڑی کا مالک  کمپنی سے مثلا ٧٥روپے وصول کرتا ہے، تواس کے متعلق تفصیل حسب ذیل ہے:

جہاں تک سواری کی منسوخی پر کمپنی کا گاہک  سے مثلا ۱۰۰روپے وصول کرنے کا تعلق ہے توواضح رہےکہ گاہک کے  سواری طلب کرنے پر کمپنی کو فعلی طور پر جو اخراجات آئے ہوں، جیسے کمپنی کو سواری منسوخ ہونے پر گاڑی کے مالک کو کچھ رقم کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے توان حقیقی اخراجات کی حد تک کمپنی کیلئے اس گاہک سے وصول کرنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ کمپنی گاڑی کے مالک سے اجارہ کا معاملہ ، اس گاہک کے سواری طلب کرنے پر کرتی ہے اور گاہک کے سواری منسوخ کرنے پر کمپنی کو یہ اخراجات محض اس گاہک کی وجہ سے برداشت کرنے پڑتے ہیں، لہذا شرعی اعتبار سے کمپنی کیلئے یہ اخراجات ، گاہک سے وصول کرنے کا گنجائش ہے۔

یہ حکم تو کمپنی کا گاہک سے حقیقی اخراجات کی حد تک لینے کا ہوا، جہاں تک کمپنی کا حقیقی اخراجات سے  زائد گاہک سے وصول کرنے کا تعلق ہے تو اس کی یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ کمپنی نے ایپلی کیشن کے ذریعے سواری طلب کرنے پر ایپلی کیشن کے استعمال کی اجرت مقرر کی ہوئی ہے جو ہر ایک سے وصول کرتی ہے، البتہ جس صورت میں گاہک سواری طلب کر کے کمپنی کے ساتھ کیا ہوا معاملہ مکمل کرلیتا ہے اس صورت میں کمپنی مستقل طور پر ایپلی کیشن کے استعمال کی اجرت وصول نہیں کرتی بلکہ سواری فراہم کرنے کی مجموعی اجرت میں سے وصول کرتی ہے، لیکن جس صورت میں گاہک  سواری طلب کرنے کے مثلا دو منٹ کے بعد منسوخ کردیتا ہے اس صورت میں کمپنی مستقل طور پر ایپلی کیشن کے استعمال کی اجرت وصول کرتی ہے، لہذا گاہک کے سواری طلب کر کے منسوخ کرنے کی صورت میں حقیقی اخراجات کے علاوہ جو مقررہ زائد رقم کمپنی، گاہک سے وصول کرتی ہے وہ شرعی حدود میں تو داخل ہے لیکن چونکہ یہ صور ۃمالی جرمانہ کی طرح ہے لہذا اس سے اگر بچا جائے تو بہتر ہے۔

جہاں تک گاڑی کے مالک کیلئے سواری منسوخ ہونے پر کمپنی سے مثل ٧٥  روپے لینے کا تعلق ہے تو جیسا  کہ پیچھے آچکا ہے کہ گاہک کے سواری طلب کرنے پر کمپنی ، گاڑی کے مالک کے ساتھ اجاره کا معاملہ کرتی ہے جس پر گاڑی چلانے والا عملی طور پر خدمت فراہم کرنے کیلئے اپنے آپ کو گاڑی سمیت کمپنی کے حوالے کر دیتاہے بلکہ کمپنی کے گاہک کو وصول کرنے کیلئے مختلف خدمات میں بھی لگ جاتا ہے جس میں اپنے موبائل فون سے گاہک سے رابطہ و غیر ہ کر نا، گاہک کے موجودہ مقام اور اسکے مطلوبہ مقام تک رسائی حاصل کرنا وغیرہ جبکہ عموما گاڑی چلانے والا دو منٹ میں گاہک  کے مقام تک عملی طور پر رسائی شروع بھی کر چکا ہوتا ہے، لہذا مثلا و و منٹ کے بعد گاہک جب سواری منسوخ کرتا ہے اسوقت تک گاڑی چلانے والا تسلیم نفس  کے ساتھ ساتھ معقود علیہ کا کچھ حصہ بھی کمپنی کو فراہم کر چکا ہوتا ہے اور باقی خدمات کی فراہمی کیلئے تیار ہوتا ہے، اس لئے گاہک کے سواری منسوخ کرنے پر گاڑی کا مالک کمپنی سے جو مثلا ٧٥  روپے وصول کرتا ہے، یہ شرعی اعتبارسے گاڑی چلانے والے کا تسليم نفس یا بعض معقود علیہ کی فراہمی اور باقی پر تمکین کے عوض بطور اجرت مثلا ٧٥ روپے صلحا  وصول کرنا ہے۔ اور اس میں شرعا قباحت نہیں۔

یہاں واضح  رہے کہ سواری کی منسوخی اگر گاڑی والے کے سبب ہوئی  ہو، تو ایسی صورت میں گاڑی کے مالک کے لئے کمپنی سے یہ رقم وصول کرنا جائز نہیں، اسی طرح ایسی صورت میں کمپنی کا یہ اخراجات گاہک سے وصول کرنا بھی جائز نہیں۔

یاد رہے کہ اس جیسے معاملہ کے متعلق یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں گاڑی چلانے والے بعض اوقات پوری دیانتداری سے خدمات انجام نہیں دیتے ، مثل گاڑی کو مقررہ رفتار سے بلا وجہ آہستہ چلانا یا ایسا راستہ اختیار کرنا جس میں بھیڑ زیادہ ہو یا بلا وجہ لمباراستہ اختیار کرناوغیرہ ، لہذا گاڑی والوں پر شرعا لازم اور ضروری ہے کہ وہ پوری دیانتداری سے خدمات انجام دیں اور کسی بھی قسم کی بددیانتی سے مکمل اجتناب کریں۔

 نوٹ: یہ جواب کسی خاص کمپنی کے متعلق نہیں ہے، بلکہ سائل کی مہیا کی گئی معلومات پر مبنی ہے،لہذا  اگر کسی کمپنی کا طریقہ کار سوال میں مذکورہ تفصیل کے مطابق ہو تو اس جواب میں مذکورحکم  اس کمپنی کے ساتھ معاملہ کرنے کا بھی ہوگا۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق (٨/٦)

أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه يعني يجب بالاستيفاء للمنفعة أو التمكن والاو لم يستوف، وفي الهداية وإذا قبض المستأجر الدار فعليه الأجرة وإن لم يسكن 2 قال في النهاية: وهذه مقيدة بقيود، أحدها: التمكن فإذا لم يتمكن بأن منعه المالك أو الأجنبي أو سلم الدار مشغولة بمتاعه لا تحب الأجرة. الثاني: أن تكون الإجارة صحيحة فإن كانت فاسدة فلا بد من حقيقة الانتفاع.

والثالث: إن التمكن إنما يجب أن يكون في مكان العقد حتى لو استأجرها للكوفة فسلمها في بغداد حين مضت المدة فلا أجر عليه. والرابع : أن يكونمتمكن  من الاستيفاء في المدة فلو استأجر دابة إلى الكوفة في هذا اليوم وذهب بعد مضي اليوم بالدابة ولم يركب لم يجب الأجر؛ لأنه إنما تمكن بعدمضي المدة

 درر الحكام شرح مجلة الأحكام (۱/ ۵۷۹)

ويصح ترديد الأجرة على صورتين أو ثلاث وتسمية أجرة لكل صورة غير أجرة الصورة الأخرى، ويعتبر البيع في جميعها دفعا للحاجة، وبما أن الإجارة بيع منافع فتقاس على بيع العين (مجمع الأنهر، الزيلعي) .

يجوز الترديد في العمل اتفاقا لأنه خيره بين عقدين صحيحين مختلفين والأجرقد يجب بالعمل وعند العمل يرتفع الجهل (مجمع الأمر).

(رد المحتار۵۳ / ۶ )

(قوله لجريان العادة إلخ) جواب عن قولهما لا تجوز؛ لأن الأجرة مجهولة. ووجهه أن العادة لما جرت بالتوسعة على الظثر شفقة على الولد لم تكن الجهالة مفضية إلى النزاع، والجهالة ليست بمانعة لذاتها بل لكونها مفضية إلى النزاع

والله تعالى أعلم

عزير طارق بلوانی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

١٥/جمادی الاخری /١٤٣٩ ھ

٤/مارچ/٢٠١٨ ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کےلیے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/567003613668888/

اپنا تبصرہ بھیجیں