الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ کی بنا پر اسقاط حمل کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

ایک خاتون کو تین ماہ کا حمل ہے،الٹراساؤنڈ میں بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت کی نشونما درست نہیں آئی ،اور ڈاکٹرز اسقاط کی رائے دے رہے ہیں،اب جبکہ حمل کو تین ماہ ہوچکے ہیں تو کیا اسقاط کروانا جائز ہے؟

جواب:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

الٹراساؤنڈ اور دیگر جدید آلات کی بنا پر جو رپورٹ دی جاتی ہیں وہ یقینی نہیں ہوتیں بلکہ گمان کے درجے میں ہوتی ہیں ،نیز مشاہدہ ان رپورٹس کے برعکس حالات کا بھی ہوچکا ہے ، لہذا ان کی بنا پر حمل کا اسقاط درست نہیں ہوگا۔

پھر اگر ان کا یقینی ہونا بھی ممکن ہو تو بھی اس عارضے کی بنا پر حمل کا اسقاط جائز نہیں ہوگا ،چنانچہ جس طرح دنیا کے پیٹ میں موجود بچہ یا بڑے انسان کو بیماری کی وجہ سے مارنا درست نہیں اسی طرح ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو بھی اس کی بیماری کی بنا پر مارنا جائز نہیں ہوگا،باقی اللہ رب العزت حمل کے باقی ایام میں اس بیماری کو دور کرنے پر بھی قادر ہیں نیزولادت کے بعد علاج و معالجے سے بھی بیماری کو دور کرنا ممکن ہے ۔اللہ سے صحت یابی کی دعا کرکے اچھی امید رکھی جائے۔

ہاں البتہ اس بچے کی وجہ سے ماں کی طبیعت مستقل خراب ہورہی ہو یا جان کو خطرہ ہو تو تین ماہ کے حمل کو ساقط کرنا درست ہوگا لیکن چار ماہ میں وہ حمل بھی ساقط کرنا درست نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) حمل کا پانچواں مہینہ ہے بچہ کے اعضاء مکمل بن چکے ہون گے اور روح پڑ چکی ہوگی ،ایسی حالت میں اسقاط حمل کی اجازت نہیں ،ڈاکٹر جو بات کہہ رہے ہیں اس کا سوفیصدصحیح ہونا ضروری نہیں ہے ، حال ہی میں ایک جنین کے متعلق ڈاکٹر رپورٹ یہ تھی کہ بچہ کا صرف ایک پیر ہے دوسرا پیر نہیں ہے ، ماشاء اﷲ وہ بچہ صحیح سالم پیداہوا دونوں پیر صحیح سلامت ہیں ، لہذا اﷲ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے.(فتاوی رحیمیہ: ١٠/ ١٩٤،دارالاشاعت اردو بازار کراچی)

(٢)وفی الذخیرۃ لوارادت القاء الماء بعد وصولہ الی الرحم قالو ا ان مضت مدۃ ینفخ فیہ الروح لایباح لھاوقبلہ اختلف المشائخ فیہ والنفخ مقدر بمائۃ وعشرین یوماً بالحدیث اھ قال فی الخانیۃ ولا اقول بہ لضمان المحرم بیض الصید لانہ اصل الصید فلا اقل من ان یلحقھا اثم وھذا لو بالا عذر ا ھ(شامی ۵/۳۲۹ قبیل باب الا ستبراء)

(٣)”العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال: أما في الحرة فلايجوز قولاً واحدًا، و أما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع، كذا في التتارخانية….امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. و هكذا في فتاوى قاضي خان.”

(فتاویٰ عالمگیری: الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، کتاب الکراہیۃ، ۵/۳۵۶، رشیدیہ)

(٤) العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز وخلقہ لا یستبین إلا بعد مائۃ و عشرین یوما۔ (ہندیہ، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات زکریا قدیم ۵/۳۵۶، جدید ۵/۴۱۲)

اپنا تبصرہ بھیجیں