عمرہ کے دوران چہرہ کا پردہ

کیا عورت حالت احرام میں چہرے پر تھوڑی سی چادر لٹکا کر اور ٹھوڑی تک ڈھک کر پردہ کر سکتی ہے؛ کیونکہ جو نقاب عمرے کے لیے ملتا ہے ،نظر کی کمزوری کی وجہ سے اس میں دقت پیش آتی ہے،نیز بزرگ خاتون حالت احرام میں چہرے کا پردہ کیسے کرے،جبکہ وہ چلنے میں لڑکھڑاتی ہے۔

الجواب باسم ملهم الصواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے پردہ کرنا ایک الگ حکم ہے اور حالت احرام میں چہرہ کو کپڑا لگنے سے بچانا الگ حکم ہے، البتہ حالت احرام میں دونوں احکام پر بیک وقت عمل کرنا ضروری ہے۔ اب چونکہ مذکورہ خاتون کے لیے عمرہ والے نقاب سے پردہ کرنا مشکل ہورہا ہے تو اس کے متبادل کے طور پر ایک صورت یہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ ایسے ہیٹ کا استعمال کیا جائے جس کے آگے چہرہ ڈھانپنے کے لیےکپڑا لگا ہوا ہو یا کسی لکڑی وغیرہ کے ذریعے چادر کو اس طرح چہرہ پر لٹکایا جائے کہ چادر، چہرہ پر نہ لگے وغیرہ، البتہ وہ خاتون اتنی بوڑھی ہیں کہ فتنے کا اندیشہ نہیں تو پھر چہرہ کھول کر بھی طواف کرسکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔يَآ اَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔ (الاحزاب: 59)

ترجمہ: اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی خواتین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکالیا کریں۔
2۔ وَالْقَوَاعِدُ مِنْ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. (النور: 60)
ترجمہ: اور جو عورتیں جوانی سے گزری  بیٹھی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں وہ اگر اپنی چادریں رکھ  دیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ۔ تاہم اگر وہ [پردہ  کر کے] عفت حاصل کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ سب کچھ سنتا، جانتا ہے۔

3۔ عن عائشة رضي الله عنها قالت كان الرُّكْبانُ يمُرُّون بنا، ونحن مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مُحرِماتٌ، فإذا حاذَوْا بنا سدَلَتْ إحدانا جِلبابَها من رأسِها على وَجهِها، فإذا جاوَزونا كشَفْناه. (رواہ ابو داود: 1833)

(مَنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا) : بِحَيْثُ لَمْ يَمَسُّ الْجِلْبَابُ بَشَرَةَ الْوَجْهِ. (مرقاة المفاتيح: 1852/5)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ سفرِ حج میں ہمارے قریب سے حاجی گزرتے تھے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں ہوتی تھیں  (چوں کہ احرام میں عورت کو منہ پر کپڑا لگانا منع ہے؛ اس لیے ہمارے چہرے کھلے ہوئے تھے اور چوں کہ پردہ کرنا حج میں بھی لازم ہے؛ اس لیے جب حاجی ہمارے برابر سے گزرتے) تو ہم بڑی سی چادر سر سے گراکر چہرہ کے سامنے لٹکالیتے اور جب حاجی  آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتے.

مذکورہ حدیث میں چہرے پر نقاب ڈالنے کی تشریح میں مشکوۃ المصابیح کی شرح مرقاۃ المفاتیح میں ہے کہ چہرہ پرنقاب ڈالنا اس طرح ہوتا تھا کہ وہ چہرے کی جلد کو مس نہیں کرتا تھا۔

4۔ (قَوْلُهُ كُلِّهِ أَوْ بَعْضِهِ) لَكِنْ فِي تَغْطِيَةِ كُلِّ الْوَجْهِ أَوْ الرَّأْسِ يَوْمًا أَوْ لَيْلَةً دَمٌ وَالرُّبُعُ مِنْهُمَا كَالْكُلِّ وَفِي الْأَقَلِّ مِنْ يَوْمٍ أَوْ مِنْ الرُّبُعِ صَدَقَةٌ كَمَا فِي اللُّبَابِ وَأَطْلَقَهُ فَشَمِلَ الْمَرْأَةَ لِمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ غَايَةِ الْبَيَانِ مِنْ أَنَّهَا لَا تُغَطِّي وَجْهَهَا إجْمَاعًا اهـ أَيْ وَإِنَّمَا تَسْتُرُ وَجْهَهَا عَنْ الْأَجَانِبِ بِإِسْدَالِ شَيْءٍ مُتَجَافٍ لَا يَمَسُّ الْوَجْه (رد المحتار: 488/2)

5۔و إحرام المرأة في وجهها و كفيها، ولو سترت وجهها بثوب مسدل من فوق راسها من غير ربط و لا إبرة و نحوها؛ جاز (غنیة الناسک فی علم المناسک: 251)

6۔ (وتغطی رأسہا) أی لاوجہہا الا أنہا إن غطة وجہہا بشئ متجاف جاز‘ وفی النہایة: ان سدل الشئ علی وجہہا واجب علیہا ودلت المسئلة علی ان المرأة منہیة عن اظہار وجہہا للأجانب بلاضرورة‘ وکذا فی المحیط: وفی الفتح قالوا: ”والمستحب أن تسدل علی وجہہا شیئا وتجافییہ (ارشاد الساری الی المناسک الملا علی القاری: 162)

7۔(فصل: في جزاء اللُّبس والتغطيه) أي المحظورَينِ (والتطيبِ والحلقِ وقلمِ الأظفار) أي على إطلاقها (إذا فَعَل شيئًا من ذلك) أي مما ذَكر من الأشياء المحظورة (على وجه الكمال) أي مما يوجب جنايةً كاملة ً بأن لبس يومًا أو طيَّب عضوًا كاملًا و نحو ذلك (فإن كان) أي فعلُه (بغير عذر فعليه الدمُ عينًا) أي حتمًا معينًا و جزمًا مبينًا (لا يجوز عنه غيره) أي بدلًا أصلا (و إن كان) أي صدورُه عنه (بعذر ) أي معتَبَرٍ شرعًا (فهو مخيِّر بين الدم والطعام والصيام) أي بتفصيلٍ يأتي فيها من الأحكام. (ارشاد الساری الی المناسک الملا علی القاری: 551)

—————————

واللہ أعلم بالصواب

03 رجب 1444ھ
25 جنورى 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں