ووٹ کس کودینا چاہیے ہے

محترم جناب مفتی صاحب جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

السلام علیکم

بعدا زسلام عرض ہے کہ آج کل انتخابات کےوقت اہل حلقہ کسی امیدوارمثلا عمر کوصالح ۔دیندار اورمدبرکےہوتےہوئے ایک فاسق وفاجرکوجواعلانیہ طورپر ناچ گانے اورعلماء اوردیندارطبقہ کو گالیااوران پر بہتان ترشی تھکتے ان کو ووٹ دینا جائزہے۔

سائل حبیب الرحمٰن عثمانی ۔

شاہنواز ٹاؤن اصحاب بابا روڈ پشاور

الجواب حامداومصلیاً

واضح رہے کہ انتخابات میں کسی امیدوارکووٹ دینے کی شرعاً چند حیثیتیں ہیں :

1۔ ایک حیثیت شہادت کی ہے ،شہادت کا مطلب  یہ ہے کہ ایک ووٹرجب کسی کوووٹ دیتا ہے توگویا اس کے دین اخاق،ا صابت  رائے ،صلاحیت وصالحیت کی گواہی دیتا ہے ،اب اگر امیدوار مذکورہ صفات کا حامل ہے تووٹر کی شہادت صحیح ہےا وروہ مستحق اجرہے،اور اگر واقع میں امیدوارکےاندر مذکورہ صفات نہیں ہیں اورووٹریہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتا ہے تویہ جھوٹی گواہی دینا ہے ، جوکہ کبیرہ گناہ ہے ۔ رسول کریم ﷺ نے جھوٹی گواہی کو شرک کے برابر قرار دیاہے :

عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا, فَقَالَ: >عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ<. ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَرَأَ: {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ}[الحج: 30].

(سنن ابی داؤد ، کتاب الاقضیہ ، باب فی شھادۃ الزور ، ( 3/305) برقم : 3599ط الکمتبۃ العصریہ )

خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی ، نماز سے فراغت کےبعدآپ کھڑے ہوگئے اورارشادفرمایا کہ ” جھوٹی گواہی شرک کے برابرہے ، یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا ۔ الخ

2۔ ووٹ کی دوسری حیثیت شفاعت  یعنی سفارش  کی ہے کہ ووٹر اس امیدوار کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے ۔اورسفارش  کےبارےمیں قرآن کریم نےیہ ضابطہ بیان کیاہے کہ جواچھی سفارش کرتا ہے اس میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے اورجوبری سفارش کرتا ہےا س کی برائی میں اس کابھی حصہ لگتا ہے ،

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾( النساء )

اوراچھی سفارش یہی ہے کہ قابل ،دیانتدار  اورا مانتدار آدمی کی سفارش کرے جوخلق خداکے حقوق صحیح طورپرادا کرے ،اوربری سفارش  یہ ہے کہ  نااہل ، فاسق وظالم  کی سفارش  کرکے اس کو خلق خداپرمسلط کرے،ا س سے معلوم ہواکہ کامیاب ہونے والاامیدواراپنےدورحکومت میں جو اچھے یابرے عمل کرے گا اس کے ثواب وگناہ میں ووٹربھی شریک ہوں گے ۔

3۔ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹرامیدوارکواپنےسیاسی اوردینی امورکاوکیل بنارہاہے ،ظاہر ہے کہ وکیل ایسے شخص کو بنایاجاتا ہے جووکالت کی ذمہ داری صحیح طریقہ سے انجام دےسکے ،اورخاص کریہ وکالت توایسے حقوق کےمتعلق ہے جن میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے اس لیے اگرکسی نااہل کو اپنی نمائدگی کے لیے ووٹ دیاجس کی وجہ سے وہ کامیاب ہوگیاتوپوری قوم کےحقوق پامال کرنے کا وبال ووٹرپربھی ہوگا۔

4۔ووٹ کی ایک حیثیت امانت بھی ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹ دینا ایک شرعی امانتداری کی ذمہ داری  کواداکرنا ہوتاہے ،ووٹ دینے والاووٹ دے کرقومی امانت کی ذمہ داری کو منتخب نمائندہ کے سپردکرتاہے، اورامانت کےادائیگی کےبارےمیں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا(سورۃ النساء 58 )

اےا یمان والو! بے شک اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ تم لوگ جملہ امانات کوان کے حق داروں کو اداکرو۔

خلاصہ یہ ہے کہ ووٹ دینے کی حیثیت  شہادت ،وکالت اورامانت کی ہےلہذا اگرامیدوار واقعی ایماندار،دیانتدار ،امانتدار ،شرع کا پابند ہے اورحقو  ق اللہ وحقوق العباد کواداکرنے والاہے، وہ قوم اورعوام کی صحیح نمائندگی  کرسکتاہے توا س کوووٹ دینا چاہیے ، یہ امانت دار کوامانت کا حق اداکرنا ہے، اچھی سفارش کرناہے اورسچی  گواہی دینا ہے ،ووٹ دینے والے کووٹ دینے پر  مذکورہ تمام چیزوں کااجرملےگا اورمنتخب نمائندہ آگے جتنے نیک اوراچھے کام کرےگا ان میں اس کے ساتھ ساتھ ووٹر کو بھی اس کا اجرملے گا،اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتوووٹر کوخلاف امانت ووٹ دینےکا ،جھوٹی گواہی دینے کا اورناجائز سفارش کرنےکاگناہ ملےگا ،یہ سب کبیرہ گناہ ہیں ،ا ور مزید یہ ہے کہ منتخب نمائندہ جتنے برےکام اس ووٹ کی بنیاد پرکرے گا تو اس کے گناہ میں ووٹر کا بھی حصہ ہوگا۔اس لیے نیک  صالح اور مدبرامیدوارکےہوتے ہوئے ،فاسق وفاجرکو وٹ دینا شرعاجائز نہیں ہے ۔

اوراگرانتخابات  میں کوئی بھی ایسا امیدوار نہ ملے جو مکمل ایماندار ،اورامانتدارہو، مکمل طورپر حقوق اللہ اورحقو ق العباد کو اداکرنے والاہوتوایسی صورت  میں مختلف نمائندوں میں جس کےعقائد  ونظریات  زیادہ صحیح ہوں ،اورجس کے اعمال زیادہ شریعت کےمطابق ہوں اس کو ووٹ دینا چاہیے ،کیوں کہ اگرووٹر اس کو ووٹ نہیں دے گا توغلط عقائد ونظریات اورغلط  اعمال والے منتخب  ہوجائیں گے  پھرا س کاوبال اس ووٹر پربھی ہوگا جس کے ووٹ دینے سے وہ آدمی آسکتاتھا جس کے صحیح عقائد ہونے کے ساتھ ساتھ بیشتر اعمال بھی صحیح ہیں ،لیکن وہ ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے نہ آسکا۔ا س لیے مسلمانوں کوچاہیے کہ ووٹ دینے کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں ۔

( مستفاداز: فتاوی بینات 3/506 ،جواہرا لفقہ 5/531، جواہرا لفتاویٰ 3/350)

فقط واعلم

کتبہ

محمد حمزہ منصور

المتخصص فی الفقہ الاسلامی

جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوی ٹاؤن کراچی

24/جمادی الثانی /1439ھ ۔13 /مارچ /2018

اپنا تبصرہ بھیجیں