ولی اور کرامت کی حقیقت دوسری قسط

ولی اور کرامت کی حقیقت دوسری قسط

ولی اللہ بنانے والے چار اعمال

شیخ العرب والعجم عارف باﷲحضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب  فرمایا کرتے تھے:

چار اعمال ایسے ہیں کہ جو ان پر عمل کرے گا ان شاء اللہ تعالیٰ ولی اللہ بن کردنیا سے جائے گا۔نفس پر جبر کر کے اللہ کو خوش کرنے کے لیے جو یہ اعمال کرے گا اس کے لیے پورے دین پرعمل کرنا آسان ہوجائے گا اور وہ اللہ کا ولی ہوجائے گا:

1- ایک مٹھی داڑھی رکھنا

حدیث میں ہے:خَالِفُواالْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوا اللُّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ اِذَا حَجَّ اَوِاعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَتِہٖ فَمَا فَضَلَ اَخَذَہٗ( بخاری شریف )

ترجمہ:مشرکین کی مخالفت کرو داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کٹاؤ۔ اور حضرت ابنِ عمر جب حج یا عمرہ کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑ لیتے تھے پس جو مٹھی سے زائد ہوتی تھی اس کو کاٹ دیتے تھے ۔

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:اِنْھَکُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللُّحٰی (بخاری شریف)ترجمہ:مونچھوں کو خوب باریک کتراؤ اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔

پس ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہے۔جس طرح وتر کی نماز واجب ہے ،عید الفطر کی نماز واجب ہے،بقرعید کی نماز واجب ہےاسی طرح ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہے اور چاروں اماموں کا اس پر اجماع ہے ،کسی امام کا اس میں اختلاف نہیں۔ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں:

اَمَّا اَخْذُ اللِّحْیَۃِ وَھِیَ مَادُوْنَ الْقَبْضَۃِ کَمَا یَفْعَلُہ بَعْضُ الْمَغَارِبَۃِ وَمُخَنَّثَۃُ الرِّجَالِ فَلَمْ یُبِحْہُ اَحَدٌ

ترجمہ :داڑھی کا کترانا جبکہ وہ ایک مٹھی سے کم ہو جیسا کہ بعض اہلِ مغرب اورہیجڑے لوگ کرتے ہیں کسی کے نزدیک جائز نہیں۔

حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ داڑھی کا منڈانا یا ایک مٹھی سے کم پر کترانا دونوں حرام ہیں اور داڑھی داڑھ سے ہےاس لیے ٹھوڑی کے نیچے سے بھی ایک مٹھی ہونی چاہیے اور چہرے کے دائیں اور بائیں طرف سے بھی ایک مٹھی ہونی چاہیے، یعنی تینوں طرف سے ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہے۔ بعض لوگ سامنے یعنی ٹھوڑی کے نیچے سے تو ایک مٹھی رکھ لیتے ہیں لیکن چہرے کے دائیں اور بائیں طرف سے کترا دیتے ہیں خوب سمجھ لیں کہ داڑھی تینوں طرف سے ایک مٹھی رکھنا واجب ہے اگر ایک طرف سے بھی ایک مٹھی سے چاول برابر کم یعنی ذرا سی بھی کم ہوگی تو ایسا کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔

2- ٹخنے کھلے رکھنا

پاجامہ،شلوار،لنگی،جبہ اوراوپرسےآنےوالےہرلباس سےٹخنوں کو ڈھانپنامردوں کے لیےحرام اور کبیرہ گناہ ہے۔بخاری شریف کی حدیث ہے:

مَا اَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَارِ فِی النَّارِ:ترجمہ:ازار (پاجامہ، لنگی ، شلوار ، کرتہ ، عمامہ ، چادر وغیرہ) سےٹخنوں کا جو حصہ چھپے گا دوزخ میں جائے گا۔

معلوم ہوا کہ مردوں کے لیےٹخنے چھپانا کبیرہ گناہ ہے کیوں کہ صغیرہ گناہ پر دوزخ کی وعید نہیں آتی۔

3-نگاہوں کی حفاظت کرنا

اس معاملے میں آج کل عام غفلت ہے ۔ بدنظری کو لوگ گناہ ہی نہیں سمجھتے حالاں کہ نگاہوں کی حفاظت کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں دیا ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ:ترجمہ: اے نبی! آپ ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔

یعنی نا محرم لڑکیوں اور عورتوں کو نہ دیکھیں۔حفاظتِ نظر اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں عورتوں کو اس کا الگ سے خصوصیت کے ساتھ حکم دیا: یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں،جبکہ نمازروزہ اور دوسرے احکام میں عورتوں کو الگ سے حکم نہیں دیا گیا بلکہ مردوں کو حکم دیا گیا اور عورتیں تابع ہونے کی حیثیت سے ان احکام میں شامل ہیں۔

اور بخاری شریف کی حدیث ہے:زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ :ترجمہ: نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے۔

مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے:لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ:ترجمہ:اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے بد نظری کرنے والے پر او رجو خود کو بد نظری کے لیے پیش کرے۔ ناظر اور منظور دونوں پر اللہ کے رسول ﷺنے لعنت کی بددُعا فرمائی ہے۔ بزرگوں کی بددعا سے ڈرنے والےسیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے ڈریں کہ آپ ﷺ کی غلامی کے صدقے ہی میں بزرگی ملتی ہے ۔ لہٰذا اگر کسی حسین پر نظر پڑجائے تو فوراً ہٹا لو ایک لمحہ کو اس پر نہ رُکنے دو۔

مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بد نظری کرنے والے کو تین بُرے القاب ملتے ہیں:

1-اللہ و رسول کا نا فرمان ۔2-آنکھوں کا زنا کار۔3-ملعون

4-قلب کی حفاظت کرنا

نظر کی حفاظت کے ساتھ دل کی بھی حفاظت ضروری ہے ۔ بعض لوگ نگاہِ چشمی کی تو حفاظت کر لیتے ہیں لیکن نگاہِ قلبی کی حفاظت نہیں کرتے یعنی آنکھوں کی تو حفاظت کر لیتے ہیں لیکن دل کی نگاہ کی حفاظت نہیں کرتے اور دل میں حسین شکلوں کا خیال لا کر حرام مزہ لیتے ہیں خوب سمجھ لیں کہ یہ بھی حرام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ:ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کی چوری کو او رتمہارے دلوں کے رازوں کو خوب جانتاہے۔ ماضی کے گناہوں کے خیالات کا آنا بُرا نہیں ہے بلکہ خیالات کا لانا بُرا ہے۔ اگر گندا خیال آجائے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں، لیکن خیال آنے کے بعد اس میں مشغول ہوجانا یا پرانے گناہوں کو یاد کر کے اس سے مزہ لینا یا آیندہ گناہوں کی اسکیمیں بنانا یا حسینوں کا خیال دل میں لانا یہ سب حرام ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔

مذکورہ بالا اعمال پر توفیق کے لیے چار تسبیحات

مذکورہ بالا چار حرام کاموں سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل چار وظائف ہیں جن کے پڑھنے سے روح میں طاقت آئے گی، اور جب روح طاقت ور ہوجائے گی تو گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے گا۔

ایک تسبیح (۱۰۰ بار)لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ پڑھیں۔ ایک تسبیح (۱۰۰ بار)اَللہ اَللہ پڑھیں۔ ایک تسبیح (۱۰۰ بار)استغفار کی پڑھیں۔ ایک تسبیح (۱۰۰ بار) دُرود شریف کی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں