واقعہ افک

“مدینہ منورہ” آکر مسلمانوں کو جن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ “مکہ مکرمہ” سے بالکل مختلف تھیں- “مدینہ منورہ” میں منافقوں” کا ایک بہت بڑا گروتھا جنکا سردار ” عبداللہ بن ابی” تھا- جو ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتا رہتا تھا- “مدینہء منورہ” میں دین اسلام کی نصرت کیلئے جیسے مخلص٫ وفاشعار اور محبت کرنے والے دوست اور جانثار ملے تھے-اسی طرح نفاق پرور ٫ عداوت پیشہ اور غدار دشمن بھی ہاتھ آئے تھے- منافق کئ بار غلط اور خلاف آبرو واقعات کی تشہیر اور خانہ جنگی کے اسباب فراہم کر چکے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر فضل وکرم نہ ہوتا تو انکی یہ بزدلانہ کوششیں “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے درمیان تفریق بلکہ خونریزی میں کامیاب ہو چکی ہوتیں-

ان کوششوں میں سب سے ذلیل مثال”واقعہء افک” ہے-

واقعہ یہ ہے کہ نجد کے قریب ” مریسیع نام کا ” بنی مصطلق” نام کا ایک چشمہ تھا-شعبان5ھ میں مسلمان اسی چشمہ کے پاس ان سے معرکہ آراء ہوئے- چونکہ منافقین کو معلوم تھا کہ یہاں کوئ خونریز جنگ نہیں ہوگی اس لئے منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد فوج میں شریک ہو گئ تھی-

“پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی کوئی سفر درپیش ہوتا تو قرعہ اندازہ میں جن “زوجہ محترمہ”کا نام نکلتا انکو ساتھ لے جاتے تھے-اس سفر میں ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کا نام نکلا-چلتے وقت ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” نے اپنی بہن ” اسماء رضی اللّٰہ عنہا” کا ایک ہار عاریتا پہننے کے لئے مانگ لیا تھا- اس ہار کی لڑیاں اتنی کمزور تھیں کہ بار بار ٹوٹ جاتی تھیں-لیکن شوق کی وجہ سے ہار پہن لیا- واپسی کے سفر میں منافقین نے کئ بار شرارتیں کیں بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ (انصاری) مہاجرین کی کوئ مالی مدد نہ کریں- ” پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نےبیچ میں پڑ کر معاملے کو رفع دفع کیا-

رات کو ایک جگہ قافلے نے پڑاؤ کیا٫ پچھلے پہر روانگی تھی-٫ امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” قضائے حاجت کے لیے کچھ دور گئیں٫ فارغ ہوکر لوٹیں تو ہار دیکھا تو گلے میں نہ تھا-کسی کو اطلاع دئے بغیر ہار ڈھونڈنے نکل گئیں کی امانت تھی-سوچا کہ قافلہ کقموچ کرنے سے پہلے واپس آجاؤنگی- ساربان نے محمل کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا- چونکہ دبلی ہےکہ تھیں اسلئے اندازہ نہ ہوا کہ محمل خالی ہے- ادھر جب ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” ہار لیکر واپس آئیں تو پڑاؤ میں سناٹا تھا- مجبوراً چادر اوڑھ کر وہیں بیٹھ گئیں کہ جب ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”

مجھے محمل میں نہ پائیں گے تو کسی کو ڈھونڈنے بھیجے گیں-

“صفوان بن معطل” رضی اللّٰہ عنہ” ایک نوجوان صحابی تھے٫انھیں “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فوج کی گری پڑی چیزوں کو جمع کر کے لانے کے لئے پیچھے مقرر کیا ہوا تھا- جب وہ صبح وہاں پہنچے تو دور سے کوئ سوار سوتا نظر آیا- قریب گئے تو”امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کو دیکھ کر “انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” پڑھا- انہوں نے” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کو آیات حجاب نازل ہونے سے پہلے دیکھا ہوا تھا- آواز سن کر ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” آٹھ بیٹھیں اور اپنا چہرہ ڈھک لیا- ” حضرت صفوان رضی اللّٰہ عنہ نے اونٹ بٹھایا اور دور جا کر کھڑے ہو گئے-“آپ رضی اللّٰہ عنہا” اسکے محمل میں سوار ہوئیں- ” حضرت صفوان بن معطل رضی اللّٰہ عنہ” نے اگلی منزل کا رستہ لیااور قافلے کے پڑاؤ کے وقت دوپہر ہی کو اسی

ے سے جا ملے-یہ نہایت معمولی واقعہ تھا لیکن ” عبداللہ بن ابی” کو جو منافقین کا سردار تھا موقع ہاتھ آگیا اور اس نے مشہور کر دیا کہ( نعوذ بااللہ)اب ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” پاک دامن نہیں رہیں-

نیک دل مسلمانوں نے فوراً استغفر اللہ پڑھا-لیکن تین مسلمان بھی اس سازش میں مبتلا ہو گئے جن میں ” حضرت حسان بن ثابت ٫ حمنہ بنت حجش اور مسطح بن اثاثہ رضوان اللہ علیہم” شامل تھے-

کافی دن گزر جانے کے باوجود بھی” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” اس دلدوز بہتان سے لاعلم تھیں-ہاں یہ محسوس کر رہی تھیں کہ ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کا میلان اجکل کچھ کم ہے-

ایک دن”ام مسطح” کے ساتھ قضائے حاجت کو ابادی سے باہر جا رہی تھیں کہ”ام مسطح” کو ٹھوکرلگی٫ انہوں نے اپنے بیٹے کو بددعا دی٫ امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” نے ٹوکا ” کہ آپ ایک بدری صحابی کو بددعا دےرہی ہیں-” ام مسطح رضی اللّٰہ عنہا” نے کہا بیٹا تم کچھ نہیں جانتیں٫ اور پھر پورا واقعہ بیان کیا٫ سننے کے ساتھ ہی ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی- کہتی ہیں بد حواسی میں اپنی ضرورت بھول گئیں اور الٹے قدموں گھر لوٹ آئیں- انکو اتنی بڑی بات کا یقین کی نہیں آ رہا تھا٫ سیدھی میکہ آئیں٫ ماں سے پوچھا تو انہوں نے تسلی دی م٫ اتنے میں ایک “انصاریہ” آگئیں انہوں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی-پوری داستان سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں- والدین نے سنبھالا اور سمجھا بجھا کر گھر بھیج دیا- گھر پہنچ کر شدت کابخار آگیا – ایسے میں “شوہر کا التفات پہلے جیسا نہ ہونے پر اجازت لیکر میکے چلی آئیں-

دن رات آنکھوں سے آنسو جاری رہتے٫” کہتی ہیں کہ” نہ آنسو تھمتا تھا نہ آنکھوں میں نیند کا سرمہ لگتا تھا-“باپ لطف و محبت سے سمجھاتے تھے کہ روتے روتے تمہارا کلیجہ نہ پھٹ جائے٫ ماں دلاسے دیتیں کہ”بیٹی! جو بیوی شوہر کی چہیتی ہوتی ہےاس کو اس قسم کے صدمے اٹھانے ہی پڑتے ہیں-کہتی ہیں کہ ایک بار غیرت سے ارادہ کیا کہ کنوئیں میں گر کر جان دے دوں”

گو ” ام المومنین” کی بیگناہی اور پارسائی مسلم تھی تاہم شریروں کے منہ بند کرنے کی لئے تحقیق ضروری سمجھی- گھر کے لوگوں میں حضرت” اسامہ بن زید رضی اللّٰہ عنہ” نے “تسکین دی اور خادمہ سے پوچھا تو وہ عام خانہ داری کے متعلق انکی حالت کا سوال سمجھتے ہوئے بولی ” بہت بھولی ہیں اور بچپنہ ہے آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں ٫ بکری آ کر آٹا کھا جاتی ہے- پھر جب صاف لفظوں میں اس سے سوال کیا گیا تواس نے کہا” سبحان اللّٰہ! خدا کی قسم سنار جس طرح کھرے سونے کو جانتا ہے اسی طرح میں انکو جانتی ہوں”

“حضرت زینب بنت جحش” رضی اللّٰہ عنہا” نے تو کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا”کہ میں عائشہ میں بھلائی کے علاؤہ کچھ نہیں جانتی”

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا” سبحان اللہ ھذا بھتان عظیم”

یہاں سے اٹھ کر “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” “امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کے پاس تشریف لائے تو وہ بستر علالت پر پڑی تھیں اور والدین تیمارداری میں مصروف تھے- ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” قریب جاکر بیٹھ گئے اور” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کو مخاطب کر کے فرمایا”عائشہ” اگر تم مجرم ہو تو توبہ کرو اللہ تعالیٰ قبول کریگا٫ ورنہ اللہ خود تمہاری طہارت اور پاکیزگی کی گواہی دیگا-انہوں نے والدین کو اشارہ کیا” کہ آپ جواب دیں” لیکن ان سے کچھ کہتے نہ بنا- یہ دیکھ کر ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کہتی ہیں” کہ میرے آنسو دفعتاً خشک ہو گئے٫ ایک قطرہ بھی آنکھوں میں نہ تھا-دل نے اپنی برءات کے یقین کی بنا پر اطمینان محسوس کیا- پھر جواب میں اس طرح گویا ہوئیں”اگر میں اقرار کر لوں٫ حالانکہ ” میرا اللہ” خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں تو اس الزام کے سچ ہونے میں کوئ شک نہیں رہ جائے گا” اگر انکار کردو تو لوگ کب باور کریں گے؟

میرا حال اس وقت” یوسف علیہ السلام” کے باپ( کہتی ہیں کہ سوچنے پر بھی یعقوب” نام یاد نہیں آ رہا تھا) کا سا ہے جنھوں نے کہا تھا ” فصبر جمیل”

دفعتاً ” چہرہء انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کر وحی کے آثار نمایاں ہوئے ” اب وہ وقت تھا کہ “عالم الغیب” کی زبان گویا ہو اور وہ گویا ہوئ”پھر “آپ صلی اللہ علیہ وسلم”نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں-

“ترجمہ: مفہوم”جن لوگوں نے یہ بہتان باندھا ہے وہ تم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں٫ تم اسکو برا نہ سمجھو٫ بلکہ اس میں تمہاری بہتری تھی-( کہ مومنین اور منافقین کی تمیز ہوگئ)

ہر شخص کو حصہ کے مطابق گناہ اورجس کااس میں بڑا حصہ تھا اسکو( عبداللہ بن ابی کو)بڑا عذاب ہوگا- جب تم نے یہ سنا تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے بھائی اور بہنوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح تہمت ہےاور کیوں نہیں ان افتراء پردازوں نے چار گواہ پیش کئےاور جب گواہ نہیں پیش کئے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹے ٹھہرے٫ اگر اللہ کی عنایت اور مہربانی دین ودنیا میں تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو جو افوہ تم نے اڑائی تھی-اس پر تم کو سخت عذاب پہنچتا٫ جب تم اپنی زبان سے اسکو پھیلا رہے تھے اور منہ سے وہ بات نکال رہے تھے ب

جسکا تم کو علم نہ تھا- اور تم اسکو معمولی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ “اللہ” کے نزدیک وہ بڑی بات تھی-

تم نے سننے کے ساتھ ہی یہ کیوں نہیں کہا” کہ ہم کو ایسی ناروا بات منہ سے نہیں نکالنی چاہئے”اللہ پاک ہے٫یہ بہت بڑا بہتان ہے”(یہی الفاظ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے بھی کہے تھے)

“اللہ تعالیٰ نصیحت کرتا ہے٫ کہ اگر تم مومن ہو تو ایسی بات نہ کرو٫ اللہ اپنے احکام بیان کرتاہے اور وہ دانا حکمت والا ہے-

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بیحیائ پھیلے انکے لئے دین ودنیا دونوں میں بڑی دردناک سزا ہے-” اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے-“

(سورہ النور) آیت 11 تا 20)

ماں نے کہا لو بیٹی اپنے شوہر کا شکریہ ادا کرو” “امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” نے ناز سے جواب دیا” میں صرف اپنے اللہ کی شکر گزار ہوں٫ کسی اور کی ممنون نہیں”-

اسکے بعد قانون ازالہ حیثیت کے مطابق ان تین مسلمانوں کو ( مجرموں)80-80کوڑوں کی سزا دی گئ-

اس سب واقع کی وجہ سے ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے قسم کھالی تھی کہ اب میں ” مسطح بن اثاثہ رضی اللّٰہ عنہ” کی کفالت سے ہاتھ روک لونگا اور دیکھا جائے تو یہ کچھ غلط بھی نہ تھا- لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کو متنبہ فرمایا” کہ انکی مالی مدد نہ کرنے کی قسم کھانا ٹھیک نہیں ہے-کہ جب انہوں نے توبہ کر لی ہے تو انکو معاف کر دینا چاہئے- ارشاد باری تعالیٰ ہے”اور تم میں سے جو لوگ اہل خیر ہیں اور مالی وسعت رکھتے ہیں٫وہ ایسی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتہ داروں٫ مسکینوں اور اللہ کے راستےمیں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دینگے٫ اور انہیں چاہئے کہ معافی اور درگزر سے کام لیں- کیا تمہیں یہ پسند نہیں کی اللہ تمہاری خطائیں بخش دے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا٫ بڑا مہربان ہے-(سورہ النور 22)

چنانچہ ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” نے اس آیت کے نزول کے بعد انکی مالی امداد دوبارہ جاری کردی٫ اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور فرمایا کہ آئندہ کبھی اس امداد کو بند نہ کروں گا-

“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہ” فرماتی ہیں کہ ان “آیات” کے نزول سے پہلے میں نے ایک خوب دیکھا ٫ خواب میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا” کیا بات ہے؟ آپ غمگین کیوں ہیں-میں نے اسے بتایا کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں میں اسکی وجہ سے غمگین ہوں- تب اس نوجوان نے کہا کہ آپ ان الفاظ میں دعا کریں:ترجمہ”اے نعمتوں کی تکمیل کرنے والے اور اے غموں کو دور کرنے والے٫پریشانیوں کو دور کرنے والے٫مصیبتوں کے اندھیروں سے نکالنے والے”فیصلوں میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے اور ظالم سے بدلہ لینے والے٫اے اول اور اے آخر! میری اس پریشانی کو دور فرما دے اور میرے لئے گلو خلاصی کی کوئ راہ نکال دے آمین”
دعا سن کر میں نے کہا “بہت اچھا”اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی٫میں نے ان الفاظ میں دعا کی٫ اسکے بعد میرے لئے برءات کے دروازے کھل گئے-
اسی طرح ایک اور غزوہء میں “آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے ساتھ “امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” تھیں اور وہی ہار ان کے گلے میں تھا- ہار اسی طرح گم ہو گیا لیکن اس واقعہء افک سے ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کو تنبیہ ہو گئ تھی اسلئے فوراً “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو مطلع کیا-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے وہیں پڑاؤ ڈال دیااور آدمیوں کو اس کے ڈھونڈنے پر لگا دیا- اس وقت مسلمان کسی چشمے کے قریب بھی نہی تھے اور ساتھ لایا ہوا پانی بھی ختم ہو چکا تھا-
اسی دوران نماز کا وقت آگیا- جب لوگوں کو پریشانی ہوئ کی اب وضو کیسے ہو تب لوگ گھبرائے ہوئے ” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے پاس آئے اور کہا” آپ کی بیٹی” نے پوری فوج کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے-
“آپ رضی اللّٰہ عنہ” سیدھے” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”اس وقت ” امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کے ران( گود) میں سر رکھے سو رہے ہیں-آہستہ آواز میں کہا”بیٹی ہر روز تم نئ مصیبت سب کے سر لاتی ہو تم نے ” رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اور سب مسلمانوں کی منزل کھوٹی کردی ہے٫ نہ یہاں لوگوں کے پاس پانی ہے اور نہ یہاں قریب میں کوئ چشمہ ہے-یہ سب کہنے کے ساتھ ساتھ “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کو کمر میں ٹھونکے (چٹکی) بھی مارتے جاتے تھے-
“امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” فرماتی ہیں” کہ اس موقع پر میں اپنے جسم کو حرکت سے روکے رہی(حالانکہ تکلیف میں تھیں-)تاکہ ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی نیند خراب نہ ہو جائے-
آخر نماز فجر کے لئے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی آنکھ کھلی تو وضو کے لیئے پانی طلب فرمایا تو بتایا گیا کہ پانی نہیں ہے-
اس وقت ” اللہ تعالیٰ” نے تیمم کی یہ آیت نازل فرمائی -:”ترجمہ:
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا حاجت ضروریہ سے فارغ ہوئے ہو یاعورتوں کو چھوا ہواور تم پانی نہیں پاتے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو٫
اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا(اس مٹی سے) مسح کرلو٫ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے-(سورہ النساء-43)(سبحان اللہ)
اس پر “سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” جو پہلے بیٹی پر غصہ کر رہے تھے فخر کے ساتھ بولے” بیٹی مجھے نہیں معلوم تھا کہ تو اس قدر مبارک ہے”-
“حضرت اسید بن حضیر رضی اللّٰہ عنہ” نے( جو ایک بلند پایہ صحابیِ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” تھے)جوش مسرت سے کہااے آل ابی بکر! یہ تمھاری پہلی برکت نہیں ہے٫ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ کے ساتھ اگر کوئ نا خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دیتے ہیں”اور مجاہدین کا گروہ جو اس مصیبت میں تلملا رہا تھا اس” ابر رحمت”(تیمم) کو پا کرمسرت سے لبریز ہو گیا٫اب اسلام کے فرزند ” اپنی ماں” کو دعائیں دینے لگے-مطلب یہ کہ اس واقع کی وجہ سے مسلمانوں کو پانی نہ ملنے کی صورت میں ” تیمم” کی سہولت عطاء ہوئ- اور اس کے بعد جب قافلہ کی روانگی کے لئے اونٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے سے ہمیں وہ ہار بھی مل گیا-(جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں