وقت بیع انعام کے طور پر سونے کا سکّہ ملے تو اس کے جائز ہونے کے متعلق حکم

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته۔
سوال:ایک وینچر ہے جس میں121 گز کے پلاٹ بنا کر بیچے جارہے ہیں اور رجسٹری کے وقت میں آدھا تولہ سونے کا سکہ بطور تحفہ دیا جا رہا ہے تو وہ لینا جائز ہے؟
تنقیح:
1۔ کیا رجسٹریشن کینسل کر دی جائے تو اس صورت میں سکہ بھی واپس کرنا ہوگا یا اس کی قیمت وصول کرکے جمع کی گئی رقم واپس کی جائے گی؟ یا کچھ اور تفصیل ہے؟ واضح فرمائیں؟
جواب : اگر ہم آگے بیچیں یا رجسٹریشن کینسل کریں گے تو گولڈ کوئن نہیں دینا پڑے گا۔ وہ مخصوص وقت تک رجسٹریشن کروانے پر تحفتا دیا گیا تھا۔

2۔ یہ پلاٹ حقیقت میں ہے یا صرف پیسہ وصول کرنے کے لیے فرضی اسکیم ہے؟
جواب: جی ہے۔ کیونکہ خریدار کے نام زمین کر دی گئی ہے۔ اور تصویریں وغیرہ بھی بنائی گئی ہیں۔

3۔ کیا پلاٹ کی مکمل قیمت ادا کر دی گئی ہے اور آدھا تولے کا سکہ بھی مل گیا ہے؟
جواب: جی ہاں! مکمل قیمت ادا کر دی گئی ہے اور سونے کا سکہ بھی ہماری ملکیت میں دے دیا گیا ہے۔

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب
اگر تو اس پلاٹ کو خریدنے سے آپ کا مقصد اس کو استعمال میں لانا ہو نہ کہ انعام حاصل کرنا ،اسی طرح یہ پلاٹ بھی مارکیٹ ویلیو پر بک رہا ہو سونے کے سکّے کی وجہ سے اس میں کوئی زیادہ قیمت نہ لگائی تو پھر اس کا استعمال کرنا درست ہے۔
*****
حوالہ جات:
کتب فتاوی سے:
1۔القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا ؛لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص.
(الدر المختار مع رد المحتار:6/ 403)

2۔القمار من القمر الذي يزاد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من القمارين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه ،فيجوز الازدياد والنقصان في كل واحدة منهما، فصار ذلك قمارا ،وهو حرام بالنص.
(البحر الرائق :8/ 554)

3۔ وقوله والهبة والصدقة كوهبتك هذه المأة أو تصدقت عليك بها على أن تخدمني سنة… وفي جامع الفصولين : ويصح تعليق الهبة بشرط ملائم كوهبتك على أن تعوضني كذا۔۔
(فتاوی شامی : 249/5)

4۔قال المفتي محمد تقي العثماني حفظه الله:الجوائز على شراء المنتجات:وإن النوع الأول… وإن حكم مثل هذه الجوائز أنها تجوز بشروط: الشرط الأول: أن يقع شراء البضاعة بثمن مثله، ولايزاد في ثمن البضاعة من أجل احتمال الحصول على الجوائز ، وهذا لأنه…فصارت العملية قمارا. الشرط الثاني:أن لاتتخذ هذه الجوائز ذريعة لترويج البضاعات المغشوشة؛ لأن الغش والخداع حرام لايجوز بحال. الشرط الثالث:أن يكون المشتري يقصد شراء المنتج للانتفاع به، ولا يشتريه لمجرد ما يتوقع من الحصول على الجائزة.
(بحوث في قضايا فقهي معاصرة:: 1 /158__ 159)

5۔الثالث:ما جرى به عمل بعض التجار أنهم يعطون جوائز لعملائهم الذين اشتروا منهم كمّيّةّ مخصوصة، ولو في صفقاتٍ مختلفة. وقد تعطي هذه الجوائز بقدر الكمّيّة لكلّ أحد،وقد تعطي الجوائزُ بالقُرعة،و ليس هذا من قبيل الزّيادة في المبيع۔
( كتاب البيوع، 357: الجوائز على المبيعات: 775/2)

6۔فلأن هذه الجوائز إذا قسمت عن طريق القرعة، قد يأخذ من أقْرَض مبلغا قليلاً، جائزة قيمتها مرتفعة جداً، ويأخذ من أقرض مبلغا كبيرًا، جائزة قيمتها قليلة، ويدفع طمع الناس بالحصول على الجوائز المرتفعة إلى شراء هذه السندات، وهذا واضح فيه القمار والميسر۔
(المعاملات المالیة اصاله ومعاصرة:330/3)
**********
اردو فتاوی سے:

7۔اگر خریدی ہوئی چیزوں کے ساتھ ہر خریدار کو انعام کے طور پر مزید کوئی چیز دی جاتی ہے، تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں، یہ فروخت کرنے والے کی طرف سے ایک طرح کا اضافہ ہے، اور فقہاء نے مبیع میں اضافہ کو جائز قرار دیا ہے۔
( کتاب الفتاوی، خریدار کو انعام : 249/5)

واللہ سبحانہ اعلم

4 ربیع الاول 1444ھ
1 ستمبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں