واش روم میں لٹکے ہوئے کپڑے پہننا

سوال۔کیا واش روم میں لٹکے ہوئے کپڑے پہننا منع ہے؟ کسی نے بتایا ہے کہ اس طرح بیماریاں آتی ہیں کیونکہ واش روم میں جنات اور گندی مخلوق ہوتی ہے؟ لہذا ان کپڑوں کو کم ازکم تین دن دھوپ میں یا ہوادار جگہ پر رکھنے کے بعد استعمال میں لانا چاہیے۔ راہنمائی فرمائیے۔

الجواب باسم ملہم الصواب

اتنی بات مستند ذرائع سے ثابت ہے کہ واش روم جنات ، شیاطین کے رہنے کی جگہ ہے ۔یہ بعید نہیں کہ ان کے اثرات کپڑوں تک منتقل ہو جائیں لیکن حقیقی طور پر واش روم میں کپڑے لٹکانا یا کپڑوں میں جنات کے اثرات پہنچنا ، اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے ۔
البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی واش روم میں لٹکے کپڑوں کو پہنا جائے تو دعا پڑھ لی جائے ۔ان شاء اللہ ہر طرح کے برح اثرات سے حفاظت ہوگی۔
جہاں تک دھوپ میں رکھنے کی بات ہے تو اس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ملتا ۔

__________

حوالہ جات :-

1۔عن انس بن مالک ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ.

(صحيح بخاری ، کتاب الوضو، باب ما يقول عند الخلاء، 66/1)

ترجمہ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اے اللہ بے شک میں خبیث جنّوں اور خبیث جنّنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

2۔وعن زيد بن أرقم) : صحابي مشهور كذا في التقريب. قال المصنف: يكنى أبا عمرو الأنصاري الخزرجي، يعد في الكوفيين وسكنها ومات بها سنة ثمان وسبعين، وهو ابن خمس وثمانين، روى عنه عطاء بن يسار وغيره (قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: (إن هذه الحشوش) بضم الحاء المهملة جمع حش بفتح الحاء وضمها وهو الكنيف، وأصل الحش جماعة النخل لاكتنافه، ثم كني به عن الخلاء لأنهم كانوا يتغوطون بين النخيل كذا ذكره الشراح. وقال الطيبي: جمع حش وهو بالضم موضع الغائط وبالفتح البستان لأنهم قبل أن يتخذ الكنيف في البيوت كانوا كثيرا يتغوطون في البساتين (محتضرة) : أي: بحضرة الجن والشياطين يترصدون بني آدم بالأذى والفساد، لأنه موضع تكشف العورة فيه ولا يذكر اسم الله فيه (فإذا أتى أحدكم الخلاء) : أي: قرب إليه (فليقل) الأمر للندب (أعوذ بالله من الخبث) : بضم الموحدة ويسكن (والخبائث) وتقدم أنه يقول: اللهم (إني أعوذ بك من الخبث والخبائث فيتخير بين الصيغتين كذا قاله ابن حجر والأولى أن يقول هذا مرة والآخر مرة أو يجمع بينهما، أو هذا مختص بأهل الغفلة والأول لأرباب الحضور والمشاهدة، ويدل عليه أن هذا أمر وذاك فعله (رواه أبو داود، وابن ماجه) وسنده حسن”.

(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الطهارۃ، باب آداب الخلاء، 386/1)

واللہ اعلم بالصواب
28ستمبر 2022
30صفر 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں